٭عزہ معین،سنبھل
Email- izzamoin@gmail.com
حال ہی میں مجھے شموئل احمد کا افسانہ ’’لنگی ‘‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔ مجھے اس سے بحث نہیں کرنی کہ افسانہ میں فنی خوبیاں اور خامیاں کیا ہیں ؟اس افسانہ کی ادب میں اہمیت کیا ہے ؟ اس افسانہ کو فن کی کسوٹی پہ پرکھنے کے بعدکیا نتائج اخذ کئے گئے ہیں؟ شموئل احمد کا فکشن نگاری میں کیا مقام ہے ؟ وہ اپنے فن کو کس زمرہ میں شامل کرتے ہیں ؟ شموئل احمد کا ادب میں کیا مرتبہ ہے ؟ وغیرہ وغیرہ ان سب مباحث سے قطع نظر مجھے ایف بی پر لگی ہوئی اس پوسٹ پر کیا کمنٹس ہوئے ؟ اس افسانہ کی اشاعت کا کیا اثر ہوا ؟ طلبہ کا اس افسانہ پر کیا خیال ہے ؟سے بحث کرنی ہے۔ جہاں تک مجھے اندازہ ہے ادب کے تقریباً سبھی باذوق اور سنجیدہ قارئین نے اس افسانہ کو پڑھ لیاہوگا ۔ پھر بھی اس افسانہ کا مختصر خلاصہ یہاں پیش کردینا بہتر سمجھتی ہوں ۔یہ افسانہ پی ایچ ڈی کر رہے طلباء کی پریشانیوں کو اجاگر کر رہا ہے جس میں ایک پروفیسر ’ابو پٹی ‘ کی عیاش فطرت اور طلبہ کی بے بسی سے ناجائز فائدہ اٹھاتے پروفیسرز کی کہانی ہے ۔
جنھوں نے افسانہ پڑھا ہے اور بالخصوص ایف بی سے پڑھا ہے انھوںنے ظاہر ہے کمنٹس بھی پڑھے ہوں گے ۔پروفیسرز نے اس افسانہ کو کس نظر سے دیکھا ہے ان کی اس افسانہ پر کیا رائے ہے یہ سب ایف بی پوسٹ سے واضح ہے ۔مجھے بہت سے پروفیسرز کے وہاں موجود ہونے پر حیرت ہوئی۔ ان میں سے بعض کے تبصرے بھی دیکھنے کو ملے ہیں۔اس لئے اپنی بات اس کے آگے سے ہی شروع کرتی ہوں ۔تبصرے کے طور پر افسانے کے موضوع اور اس کی حقیقی زندگی سے قریب ہونے پر جو کچھ لکھا گیا ہے مجھے اسے پڑھ کر ہی خوف آرہا ہے ۔حالانکہ بہت سے کمنٹ اختلاف میں بھی ہیں لیکن اس کی وضاحت بھی میں اس تحریر میں آگے کروںگی۔ حیرت اس بات پر ہے کہ افسانہ کی حمایت میں جن لوگوں نے اظہار خیال کیا ہے ان میںتقریبا ًسبھی نے اور بالخصوص اسکالرز نے اس امر پر مہر ثبت کی ہے کہ واقعی تعلیمی اداروں میں یہ سب عام ہے یعنی خواتین کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری عزتیں نیلام کر کے حاصل ہو رہی ہے ۔ان سب کا کہنا ہے کہ مذکورہ افسانہ اور اس کا موضوع حقیقت سے بہت قریب ہے ۔اس امر کی پرزور حمایت وہ طلبہ کر رہے ہیں جو کسی نہ کسی یونیورسٹی میں ریسرچ کر رہے ہیں ۔انھیں اس بات کے اعتراف میں کوئی عار نہیں کہ افسانہ میں خواتین کے ساتھ پروفیسرز کا جو رویہ پیش کیا گیا ہے وہ بالکل حقیقت پر مبنی ہے ۔بعض اسکالرز صرف حمایت ہی نہیں کر رہے ہیں بلکہ ان کا دعوی ہے کہ ہماری درسگاہوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ مجھے جن طالب علموں سے اس کے وربلverbal ثبوت مہیا ہوئے ہیں ان میں جامعہ کے اسکالرز پیش پیش ہیں ۔میل اسکالرز کا بیان ہے کہ شموئل احمد نے حقیت کو بے نقاب کردیاہے ۔ان کا کہنا ہے کہ ہم یونیورسٹیز میں یہ حال دیکھ رہے ہیں ۔پروفیسرز حضرات خواتین کی طرف زیادہ جھکے ہوئے ملتے ہیں ۔بلکہ بعض توصرف خاتون اسکالرز کو ہی اپنے زیر نگرانی پی ایچ ڈی کرانے میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔داخلہ ہوتے ہی خوش شکل لڑکیوں کو قریب کرنے میں لگ جاتے ہیں ۔ان کی تمام تر ہمدردیاں فی میل اسکالرز کے ساتھ ہوتی ہیں ۔جامعات کے میل اسکالرز کی شکایت ہے کہ یہی ہمدردیاں میل اسکالرزکے ساتھ کیوں نہیں ہوتی ہیں ۔اس متعصبانہ رویہ کی وجہ ان کے ذہن کی گندگی تو نہیں ؟؟افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے ملک کی وہ یونیورسٹیاں جن کے کیمپس کا اسلامی ماحول نہ صرف ہندوستان میں بلکہ عالمی پیمانہ پر مشہور ہے وہ بھی اس غلاظت سے پاک نہیں ہیں۔ہم مثال کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹیوں کے نام لے سکتے ہیں۔دہلی یونیورسٹی اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی ان کا تو خیر ماحول ہی مغربی ہے ۔ان پر بات کرنا بے سود ہے ۔ان کا کیا ذکر کرنا ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا
واقعی یونیورسٹیز کا حال ایسا ہے ؟ کیا طالبات کی اعلی درجات میں تدریس اس پیمانے پر کی جا رہی ہے ؟ کیاہماری طالبات اعلی تعلیم کے پردہ میں اس قدر بدنام ہو رہی ہیں ؟سوال اس لئے ذہن میں پیدا ہوا کہ افسانہ ’’لنگی ‘‘ پر بعض پروفیسر حضرات نے تبصرہ کرتے ہوئے تعلیمی اداروںمیں اس قسم کی بیہودگی کی تردید کی ہے ۔جبکہ بعض پروفیسروں نے تبصرہ کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ جو حضرات مذکورہ افسانہ پڑھ کر واویلا مچا رہے ہیں ان میں وہی لوگ پیش پیش ہیں جن کی لنگیاں کھل کر منظر عام پر آگئی ہیں ۔ یعنی پروفیسرز بھی اس امر پہ مہر ثبت کر رہے ہیں کہ واقعی اساتذہ کا کردار اس درجہ گندگی میں لتھڑا ہوا ہے ۔
میں کیوں اس افسانہ کا ذکر کر رہی ہوں ؟ کیوں اس افسانہ پر ہونے والے پر زور تنازعہ کا بیان کر رہی ہوں ؟ جواب یہ ہے کہ مجھے اس سال سے ریسرچ اسکالرز کے خانہ میں گنا جانے لگے گا ۔ میں لڑکی ہوں اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والوں کی قطار میں شامل ہونے جا رہی ہوں ۔اب تک ایم اے کی کلاسز اٹینڈ کی ہیں اس کے علاوہ تھوڑ ابہت لکھنے پڑھنے سے سروکار تھا ۔حالانکہ میں نے اس مرحلے میں بھی بہت سے مضامین لکھے ہیں ۔میری اس عادت پر میرے بعض دوستوں نے مجھے زود نویس کا خطاب تک دے دیا ۔مجھے خود بھی اس کا احساس ہے کہ میں کچھ زیادہ ہی لکھنے لگی ہوں ۔ایم اے کے دوران لکھتے اور پڑھتے ہوئے کبھی یہ احساس ہی نہ ہوا کہ بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں ہو کیا رہا ہے ۔لیکن اب بہت سارے خدشات سر اٹھائے کھڑے ہیں ۔کہاں ایڈمشن لوں ؟ نگراں کے طور پر کسے منتخب کیا جائے ؟ اس بحر علم اور بحر غلاظت میں کون پاکدامن ہے ؟ کیسے یا کس کو ضامن بنایا جائے ؟ الغرض بہت زیادہ فکر مند ہوں ۔
آپ کہ سکتے ہیں کہ ایسے ہی ہوتا ہے خواتین کو ڈاکٹریٹ کی اسناد اسی راستے پر چل کر ملتی ہیں ۔یعنی اپنی عزت داو پہ لگا کر وہ سند پا رہی ہیں اگر ایسا ہی ہے تو بہ ہوش و حواس میرے کچھ سوالات کا جواب دیجئے ۔
۱۔پی ایچ ڈی ہولڈر خواتین کی تعداد زیادہ ہے یا مردوں کی ؟
۲۔ادب میں متحرک شخصیات میں خواتین زیادہ ہیں یا مرد ؟
۳۔موجودہ وقت میں پی ایچ ڈی کرنے والوں میں لڑکوںکی تعداد زیادہ ہے یا لڑکیوں کی ؟
جہاں تک میرا خیال ہے جواب یہی ہوگا کہ لڑکوں کی ہر جگہ بہتات ہے ۔کیوں کہ پورے شہر میں کوئی ایک ہی پی ایچ ڈی کئے ہوئے عورت ہوتی ہے ۔لیکن ایک شہر میں چار پانچ مرد پی ایچ ڈی ہولڈر تو ہمارے یہاں عام بات ہے ۔اب یہ بتائیے کہ آپ کے کہنے کے مطابق عورتوں کو تو عزتیں نیلام کرکے پی ایچ ڈی کی ڈگری مل گئی ۔لیکن اتنی بڑی تعداد میںمردوں کو کیوں ڈگریاں تفویض ہوئیں ؟ ایک دو کو مل جاتی تین چار کو محنت سے مل جاتی سب کو کیوں ؟ آپ کا جواب ہوگا لڑکوں کو بنا پیسا جمع کئے ڈگری نہیں ملتی ۔چلئے مان لیا ۔اب اگر پیسے جمع کرکے مردوں کو ڈگری مل بھی گئی حالانکہ پی ایچ ڈی کرنے والے بالخصوص اردو سبجیکٹ میں اتنے پیسے والے نہیں ہوتے ۔دوسری بات جس پروفیسر کی نگرانی میں ان کی پی ایچ ڈی ہورہی ہے وہ پرائیویٹ نہیں ہوتا ۔یعنی نگراں پروفیسر گورنمنٹ جاب پر ہوتے ہیں ۔اب رہی بات عورتوں کی تو ان میں زیادہ تر اسکالرز شادی شدہ ہی ہوتی ہیں ۔پہلے یا دوسرے سال میں ہی سب کی شادی خانہ آبادی ہو جاتی ہے ۔اگر یہ بات ہے تو بھائی کون آدمی اپنی شریک حیات سے اتنا بے خبر ہوگا کہ اسے کھلے عام پروفیسرز کی عیاشی کے لئے چھوڑ دے ۔اب اگر افسانہ کو حقیقت سے جوڑا جائے یا جیسا کہ اسکالرز کا دعوی ہے اسے اسی طرح مان لیا جائے اور واقعی ایسا ہوتا ہے تو صاحب ایک دو جگہ ہوتا ہوگا ظاہر ہے برائی اسی دنیا میں ہے ۔تواس میں پورے شعبہ کو بلکہ اعلی تعلیمی نظام کو بدنام کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟جیسا کہ افسانہ میں پلاٹ بنا گیا ہے کہ ایک پروفیسر نے زربہارکے بھائی طوفان کی دھمکی سے ڈر کر زرنگار کو چھوڑ دیا تو دوسرے پروفیسر کی عیاشی یا زربہار کی بے راہ روی کو روکنے اس کا بھائی طوفان نہیں آیا ۔کیا شعبہ میں تمام پروفیسرز اسی چال چلن کے ہیں کہ ایک نہیں تو دوسرا سہی ۔پروفیسر چلئے مان لیا غلط ذوق رکھتے ہیں طلباء کیوں احتجاج نہیں کرتے ؟ کیوں اسی راہ پر سکون سے چلتے جا رہے ہیں ؟اور اتنی آسانی سے کہ بھائی اگر ڈگری تفویض کرنے میںپیسے اور عورت کی خوبصورتی ہی چاہئے اور ہمارے پاس یہ نہیں تو ہم زیراکس کاپی کی مشین ہی لے کر بیٹھ جائیں۔حد ہے!اس کی عقل بھی گھاس چرنے گئی ہے ۔چلئے خیر اسے بھی مان لیا ۔اس ملک کا بھی کیا کیا جا سکتا ہے ۔ہر شعبہ میں کرپشن ہے ۔یہاں نہ ہو ایسا کیسے ممکن ہے ۔حیرت تو ان اذہان پر ہے جو اس نظام کو تسلیم کئے ہوئے ہیں اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں ۔ان میں ایسے بھی ہیں جو بڑے سورما کہے جاتے ہیں اور وہ خود کو ’سورما ‘مانتے بھی ہیں۔ جیسا کہ اب ہم نے یہ سنا ہے کہ کیمپس میں دبنگئی بھی بہت ہوتی ہے ۔گروپ بندی ہوتی ہے ۔ہر یونیورسٹی میں طلبہ کے گروہ بنے ہوئے ہوتے ہیں ۔ آپ نے بھی سنا ہوگا کہ طلباء کی دہشت سے پرنسپل بھی کانپتے ہیں ۔ارے بھئی دور کیا جانا آپ خود اپنی مثال لے لیجئے ابھی کوئی ذرا سا جوش دلا دے تو کہتے ہوئے دوڑ پڑوگے کہ ’’ہم بھی دو ہاتھ رکھتے ہیں ‘‘یہ جملہ بازی کہاں مر جاتی ہے اگر واقعی تمھارے تعلیمی تعلیمی مراکز کا اتنا برا حال ہے۔خیر ! تم جانوں تمھاری علمی ادبی سرگرمیاں تمھیں کس طرف لے جارہی ہیں ۔دھتکار ہے تمھارے طالب علم ہونے پر ۔ کیوں کہ ریسرچ اسکالر ہی تنقید کرنے میں سب سے آگے ہوتے ہو اپنا کچرا صاف نہیں ہوتا ۔
دوسری طرف اس افسانہ پر کمینٹ کرنے والے ایسے لوگ بھی ہیں جنھوں نے سیدھے سیدھے خواتین کے کردار کو ہی نشانہ بنا لیا ہے ۔ان کے کمنٹس عورتوں کے کردار کو ہی کمزور ثابت کرنے کے درپے نظر آرہے ہیں ۔بہت سے حضرات یہ ثابت کرنے کی سعی میں غلطاں ہیں کہ خواتین اپنے کام نکالنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہیں ۔ان سے سوال ہے کہ سب کو ایک ہی خانہ میں تولنے والے آپ کون ہوتے ہیں ؎۔ اگر ایک آدھ لڑکی آپ حضرات کے بہکائے میں آگئی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمام لڑکیاں ہی پی ایچ ڈی کی ڈگری غلط راستے پہ چل کر حاصل کر رہی ہیں ۔پہلی بات تو یہ کہ اعلی تعلیم یافتہ خواتین کی تعداد ہی کتنی ہے دوچار اگر سامنے آرہی ہیں تو کیا یہی ایک شعبہ پی ایچ ڈی کا اتنا ،مشکل ہے کہ عورتیں یہاں محنت نہیں کر سکتیں ۔جبکہ دیگر علوم میں وہ اپنی حاضری صد فی صد درج کرا رہی ہیں ۔اعلی تعلیم ہی ایک ایسی ہے کہ یہاں انھیں محنت سے نہیں بلکہ قیمت سے ڈگری ملے گی ۔
کیا ایک پی ایچ ڈی کی ڈگری لینے والی عورتیں ہی اتنی نکمی ہیں کہ اتنے مہنگے داموں ڈگریاں حاصل کر رہی ہیں ؟ جبکہ ہم دیگر شعبوں اور تعلیمی سرگرمیوں میں خواتین کی ذہانت اور علم کے قائل ہو گئے ہیں ۔ ہر شعبہ میں خواتین نے اپنی نمائندگی درج کرائی ہے یہاں تک کہ یوپی ایس سی کے رزلٹ میں ہم لڑکیوں کو مردوں سے کہیں بڑھ کر دیکھ رہے ہیں ۔ اس سے ثابت نہیں ہے کہ خواتین واقعی مردوں سے زیادہ محنت کر تی ہیں یہ صرف سال رواں کی بات نہیں بلکہ ہم ہر سال کسی بھی رزلٹ کو چک کرلیں اس میں نمائندگی کے طور پر عورتیں ہی سبقت لے جاتی ہیں ۔
یہاں ایک شکایت سسٹم سے بھی ہے۔کیوں کہ ان چھ سات دنوں میں جو کچھ دیکھ اور سن رہے ہیں وہ یقیناً ہمارے اساتذہ کا سر شرم سے جھکانے لائق ہے۔ مذکورہ افسانہ پر ہو رہے مباحثہ دیکھ کر یہ یقین ہو چلا ہے کہ واقعی یہ ساری بدنظمی ہمارے تعلیمی اداروں کا حصہ ہے اور کہیں نہ کہیں یہ سب خرافات آج ہمارے معاشرے میں جڑ پکڑے ہوئے ہیں ۔اب سوال یہ ہے جب بات اتنی پھیل گئی ہے اور اتنا سب کچھ ہورہا ہے تو کیا وجہ ہے کہ کروڑوں روپئے تعلیم اور عورتوں کی تربیت پر خرچ کرنے والی حکومت تعلیمی نظام سے عورتوں پر آنے والے ان خطرات کا ازالہ کرنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھا رہی ۔ کیوں سسٹم کی لاپروائی کا یہ حال ہے کہ اعلی تعلیم حاصل کررہی عورتوں کی عزت محفوظ نہیں ؟کیوں نہیں ہر ادارہ میں خاتون اسکالرز کو فی میل نگراں مہیا کئے جاتے ہیں ۔ یاپھر درمیان سے نگراں کا وجود ہی ختم کیا جائے ۔پی ایچ ڈی کی تعلیم بھی سینٹرل ادارہ کے سپرد کر دی جائے ۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری ۔پورا ملک بلکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ عورتوں کی زندگی کتنی نازک اور تلوار کی دھار پر چلنے جتنی مشکل ہوتی ہے ۔موتی کی سی آب ہے ایک بار چلی گئی تو پھر نہیں ملتی ۔شیشہ میںبال پڑ جائے تو ختم نہیں ہوتا ۔لڑکیاں اتنی نازک ہوتی ہیں کہ اگر ایک بار ان پر شک کی نگاہ اٹھ جائے تو زندگی بھر وہ اس شک کو مرد کے دل سے نہیں نکال سکتی ۔اگرچہ فی نفس وہ پاکدامن ہو تی ہے ۔اس لئے حکومت اور تعلیم نسواں کی حمایت کرنے والوں سے میری اپیل ہے کہ وہ ایسا نظام مہیا کریں جہاں ایک لڑکی اعلی تعلیم حاصل کرتے ہوئے کسی بھی مرحلے میں خود کو بے بس محسوس نہ کرے ۔ایسا سسٹم بنایا جائے کہ اعلی تعلیم حاصل کرنے والی خواتین سہمی ہوئی نہ رہیں ۔اگر ایسا ممکن نہیں یعنی اعلی تعلیمی اداروں میں اعلی تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کا استحصال ہوتا رہے گا اور پی ایچ ڈی کی اسناد انھیں اپنی عزتیں نیلام کرکے ملتے رہے تو یہی سمجھا جائے گا کہ تعلیم نسواں کا نعرہ کھوکھلا ہے اور حکومت لڑکیوںکی حفاظت کی ذمہ داری نہیں لے سکتی ۔