Home / خبریں / اقبال کا تصور ادیان

اقبال کا تصور ادیان

شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؔ کی یوم ولادت پر خصوصی پیش کش

IMG_20160922_145125 (1)
٭ڈاکٹرخان محمد آصف

شعبۂ اردو،گوتم بدھ یونیورسٹی،گریٹر نوئیڈا،یوپی

iqbal_day_1

اقبال اردو کے تخلیقی دانش کا وہ نام ہے جس کی نظیر زمانہ پیدا نہ کر سکے گا۔اردو کے شعری مزاج کو فلسفیانہ ثمر آوری کے لئے اپنے ذہن کی مٹی سے ذرخیز کیا۔ان کا آسمان تخیئل خیالات و جذبات کے کہکشاںکی آماجگاہ تھی۔ جس کا بین ثبوت ان کی تخلیقی فکر ہے۔جس کے مطالعہ و مشاہدے سے مخصوص تفتیشی دانش ابھر کرسامنے آتی ہے نابغہ کی نظر معاشرے کی نبض پر ہوتی ہے وہ سماج کے چیختے اور تڑپتے مسائل کواپنی تیسری آنکھ سے دیکھ اور چھٹی حس سے بھانپ لیتا ہے،جب اقبال کا تخلیقی شعور بلوغت پر تھا مغرب جدیدیت کی تیرگی میں فرد کی تنہائی اور اقدار کی شکست و ریخت کا نوحہ کر رہا تھا،بورژواکی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں دنیا کو سیاہ عفریت کی طرح نگل لینے پر آمادہ تھی ۔ایسے نامساعد حالات میں اقبال نے مشرق سے بے زار ی بھی ظاہر نہیں کی اور نا مغرب سے حزر کیا۔ بلکہ اپنے مطالعہ اور ذاتی مشاہدے سے فنطاسی میں جی رہی دنیا کو آگاہ کیا کہ زمام حکومت مزرور کے ہاتھ میں ہو یا مالک کے ہاتھ میں ۔پرویزیت کے حیلے اور حوالے رہیں گے ۔وقت کا ضحاک جو سرمایہ داری کی علامت ہے بادشاہت اور جمہوریت کے بھیس میں عیاری و مکاری کرتا رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے سرمایہ دارانہ نظام کو مداری سے مخاطب کیا ۔آپ اگر علامہ کے شعری و نثری سرمائے کا مطالعہ کریںتو آپ محسوس کریں گے کہ ان کے تخلیقات کا بڑا ذخیرہ یورپ کی لا دین سیاست کا منکر ،اور خو د فریب ملوکیت اور ظالم و جابر سامراجیت ہے جس کے معاشرے کی تمدنی تشکیل کی اساس مادی وسائل پر ہے جو اپنی ظاہری چمک دمک اور جمال دل فریب سے آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے۔اقبال نے دنیا کے سبھی افکار و نظریا ت اور فلسفے کا مطالعہ کھلے ذہن اور عمیق نظر سے کیا۔لیکن اپنے تخلیقی فکر کی بنا مغرب کے بجائے مشرقی فلسفے پر رکھی ،کیونکہ ان کے خمیر میں کائناتی خاندان کا ویدانتی فلسفہ تھا جس میں جذب و انجذاب کی قوت و صلاحیت ہے۔تو دوسری طرف اپنے من میں ڈوب کرزندگی کے سراغ پانے کے مشرقی افکار تھے۔ جو جگر کی آگ سے زندگی کے چراغ روشن کو کرنے کی تعلیم دیتے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ ہندستانی تہذیب کی اخلاقی و روحانی اقدار ہیں۔ احترام آدمیت ،وحدانیت ،جمعیت اقوام ،صلہ رحمی ،محبت و اخوت ،امن و آشتی ،مذہبی و تہذیبی ہم آہنگی کی تعلیمات یہاں کے لوک دانش اور اجتماعی شعور میں ہے۔ اقبال نے حتی الامکان ہندی فلسفے اور درشن کو اپنی شاعری کو موضوع بنایا ۔کیونکہ ان کا جنم دنیا میں غیریت کے پردے کو تار تارکرنے اور نقش دوئی کو مٹانے کے لئے ہوا تھا۔اقبال کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ دنیا کا ہر مذہب احترام انسانیت کا درس دیتا ۔کوئی بھی مذہب آدمیت سے بیر رکھنے کی تعلیم نہیں دیتا۔
نظم نیا شوالہ سے دو بند ملاحظہ کریں ۔
آ،غیریت کے پردے اک بار پھر اٹھا دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بچھڑوں کو پھر ملادیں ،نقش دوئی مٹا دیں
یا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
اپنے انتقال سے کچھ عرصے قبل اقبال نے سال نو کے موقع پر احترام انسانیت پر قوم کے نام ایک پیغام دیا تھا جو ریڈیو لاہورسے نشر ہو اتھا ۔ملاحظہ کریں” تمام دنیا کے ارباب فکر دم بخود سوچ رہے ہیں کہ تہذیب کے اس عروج اور انسانی ترقی کے اس کمال کا انجام یہی ہونا تھا کہ انسان ایک دوسرے کی جاںو مال کا دشمن بن کر کرہ ارض پر زندگی کا قیام نا ممکن بنا دیں ۔در اصل انسان کی بقا کا راز انسانیت کا احترام ہے ۔اور جب تک دنیا کی تمام علمی قوتیں اپنی توجہ احترام انسانیت پر مزکور نہ کر دیں۔دنیا بدستور درندوں کی بستی بنی رہے گی ۔قومی وحدت بھی ہرگز قائم و دائم نہیں رہے گی ۔ وحدت صرف ایک ہی معتبر ہے اور وہ بنی نوع انسان کی وحدت ۔جو رنگ و نسل و زبان سے بالاتر ہے۔جب تک اس نام نہاد جمہوریت ،اس ناپاک قوم پرستی اور اس ذلیل ملوکیت کی لعنتوں کو مٹایا نہ جائے گا۔اس وقت تک انسان اس دنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہ کر سکے گا اور اخوت و حریت اور مساوات کے شاندار الفاظ شرمندئہ معنی نہ ہونگے ،خداوند کریم حاکموں کو انسانیت اور نوع انسانی کی محبت عطا فرمائے۔”
اقبال نابغائی شخصیت کے حامل تھے ۔انھوں نے اپنی بصیرت سے اس بات کی بشارت دے دی کہ دنیا بدستور درندہ صفت انسانوں کا جنگل بنتی جارہی ہے۔کیونکہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کا تباہی و بربادی کے منظر کو دیکھ چکے تھے۔جس کے نتیجے میںانھیں اس بات کا یقین کامل چکاتھا کہ بنیاد پرستی اورمذہبی جنونیت ایک دن اپنے ہم راہ پیام مرگ لائے گی ۔جس کے سبب آزادی خیال ،اخوت و حریت اور مساوات کے معنی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکیں گے۔اسی لئے انھوں نے اپنی تخلیقات میں جگہ جگہ جمعیت اقوام کی جگہ احترام آدمیت اور جمعیت آدم کا ذکر کیا ہے۔وہ اسلامی فلاسفی اور یوروپین نظریات و فکریات کا تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں ۔ملاحظہ کیجئے۔
تفریق میں حکمت ،افرنگ کا مقصود۔۔۔۔۔۔۔۔اسلا م کا مقصود فقط ملت آدم
مکے نے دیا خاک جنیوا کو یہ پیغام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جمعیت اقوام کہ جمعیت آدم
اقبال کی تخلیقات کے فکری سوتے بھارتیہ فلسفے اور درشن کی کوکھ سے پھوٹے ہیں۔لیکن انھوں نے اپنی دانش سے لحن حجازی اور نغمئہ ہندی کو تحلیل کیا ،جسے ہند اسلامی کہنا بے جا نہ ہوگا۔انھوں نے ہند کے مذہبی تصورات اور فلسفیانہ بصیرت کا کھلے دل سے اعتراف کیا جو ان کے کشادہ ذہنی اور وسعت قلب پر دال ہے۔ اقبال اسلام کی وحدانیت اور دینی حمیت کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کو بھی تکریم کی نگاہ سے دیکھا۔ اور ان مذاہب کے تصورات کو اپنے شعری کائنات میں بھر پور طور سے عکاسی کی۔ان کی شاعری میں جن مذہبی شخصیتوں کو مثالی بنا کر پیش کیا گیا ،وہ تمام کی تمام اعلی اقدار کی حامل تھیں ۔ان میں سب سے اہم نام شنکر اچاریہ کا ہے جن کی فلسفیانہ فکر کی اساس اصلا فلسفہ ویدانت پر ہے اقبال نے اچاریہ جی کے یہاں سے تصور وحدت الوجود کو لیا۔مذہبی رہنماسوامی رام تیرتھ مسلکی طور پر ویدانتی عقیدے سے تعلق رکھتے تھے ان تصور کی کامل اساس نظریہ وحدہ پر تھی کہ یک ست اس کے ماسوا کوئی نہیں وہی حق ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کائنات بھی اسی کا مظہر ہے باقی سب فریب،دھوکہ اور مایا ہے۔انھوں نے ویدانت کے عقیدے نفی ہستی اور تصور فنائیت کو عام کیا ۔اقبال سوامی رام کی شخصیت کو گوہر نایاب کہا۔جنھوں نے بڑی خوبصورتی سے نسلی و قومی امتیاز میںاسیر دنیا کو آگاہ کیاکہ صرف اور صرف خدا ہی واحد کی ذات باقی رہنے والی ہے اس کے علاوہ تمام ذی روح وجود کو فنا کا مزہ چکھنا ہے۔اس کا اعتراف کرتے ہوئے اقبال لکھتے ہیں ۔
آہ :کھولا کس ادا سے تو نے راز رنگ و بو۔۔۔۔۔۔میں ابھی تک ہوں اسیر امتیاز رنگ و بو
مٹ کے غوغا زندگی کا شورش محشر بنا۔۔۔۔۔۔۔یہ شرارہ بجھ کے آتش خانہ آزر بنا
نفی ہستی اک کرشمہ ہے دل آگاہ کا ۔۔۔۔۔۔۔۔لا کے دریا میں نہاں موتی ہے الا اللہ کا
اقبال نے جہاں رگ وید کے مقدس گائتری منتر کواپنے خیالات کا جامہ پہنایا وہی بھگوان شری کرشن کے پیغام کو نغمہ خداوندی کہا ۔اپنی نظم” سر گذشت آدم "میں کرشن جی بارے میں لکھتے ہیں کہ” سنایا ہند میں آ کر سرود ربانی”شری کرشن کی عظمت کو اسرار خودی کے دیباچے میں یوں بیان کیا ہے۔” شری کرشن کا نام ہمیشہ ادب و احترام سے لیا جائے گا ۔اس عظیم الشان انسان نے ایک نہایت دل فریب پیرائے میں اپنی قوم و ملک کی فلسفیانہ روایات کی تنقید کی اور اس حقیقت کو آشکار کیا کہ ترک عمل سے مراد ترک کلی نہیں ہے ۔بل کہ ترک عمل سے مراد یہ ہے کہ عمل اور اس کے نتائج سے مطلق دل بستگی نہ ہو۔شری کرشن کے بعد شری رامانج بھی اسی راستے پر چلے،مگر افسوس ہے کہ جس عروس معنی کو شری کرشن اور شری رامانج بے نقاب کرنا چاہتے تھے ،شری شنکر کے منطقی طلسم نے اسے پھر محجوب کر دیا اور شری کرشن کی قوم ان کی تجدید کے ثمر سے محروم رہ گئی ” (دیباچہ ،اسرار خودی،ص ۳۶)
علامہ اقبال نے وشنو کے ساتویں اوتار مریادہ پرشتم بھگوان شری رام کی زندگی کو روحانی بصیرت کا اعلی نمونہ قرار دیا۔جن کی زندگی پاکیزگی ،ہمت و شجاعت اور جوش محبت سے لبریز تھی ۔ان کے پیام ہدایت نے سر زمین ہند میں وہ معجزے کیے کہ آج بھی اہل ہندکو ان پر ناز ہے۔ اقبال نے شری رام کو امام ہند اور چراغ ہدایت کے القاب سے یاد کیا ہے۔اور ان کی شان میںبارہ مصرعے کی ایک نظم کہی ہے نظم کے چند مصرعے ملاحظہ کریں ۔
لبریز ہے شراب حقیقت سے جام ہند۔۔۔۔۔۔سب فلسفی ہیں خطہ مغرب کے رام ہند
یہ ہندیوں کے فکر فلک رس کا ہے اثر۔۔۔۔۔۔۔رفعت میں آسمان سے بھی اونچا ہے بام ہند
ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز ۔۔۔۔۔۔۔۔اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند
اقبال جاوید نامہ کو اپنی زندگی کا ما حصل تسلیم کرتے تھے۔ان کا یہ شاہ کار ایک ایسی تخیلی اور یوٹوپیائی دنیا کی روداد سفر جسے اقبال سفر افلاک کا نام دیتے ہیں ۔جاوید نامہ ابن عربی کی فتوحات مکیہ سے متأثر ہوکر لکھی گئی ۔اس سفر کے دوران سب سے پہلے جس رشی سے ملاقات ہوئی وہ وشوامتر تھے اقبال نے انھیں عارف ہندی اور جہاں دوست سے مخاطب کیا ہے۔ان کے فکر کی اساس خودی کے ذریعہ اپنے وجدان اور اندرون ذات کی پوشیدہ قوت کو اجاگر کرنا تھا۔دنیا کے دکھوں کا سارتھی گوتم بدھ اپنے ہست یگانہ تصورات کو پیش کرتے ہوئے، دنیا کو عدم تشدد اوردکھوں پاک کرنا چاہتے ہیں۔ تاکہ انسان شونیتا سے ہوتے ہوئے عرفان اور نروان کی منزل کو پا لے۔اقبال گوتم بدھ کی پاک دامنی اور برہمچاریہ کا ذکر یوں کرتے ہیں ۔
مئے دیرینہ و معشوق جواں چیزے نیست۔۔۔۔۔۔۔پیش صاحب نظراں حور جناں چیزے نیست
اقبال نے بدھ مت کے عقائد ایمان،ارادہ،گفتار،عمل ،پیشہ،کوشش،فکر،توجہ کو پیش کیا کہ اگر بدھ مت کے پیرو ان اصولوں پر پوری ایمان داری اور نیک نیتی سے عمل پیرا ہوں تو ان کا دین اور دنیا سنور جائے گی۔لیکن دیار ہند میں ان کے پیام پر کوئی کان دھرنے والا نہیں تھا اس کے علاوہ برہمنیت کے بڑھتے زور کے آگے بدھ دھرم کی پسپائی ہوئی ۔کیونکہ گوتم کی مذہبی رواداری سے برہمن ازم کے طبقاتی نظام کو بڑا خطرہ لاحق تھا ۔اس لئے اس کے پیروؤں کو دیش نکالا کر دیا۔ اس کا ذکر اقبال سرگزشت آدم میں یوں کرتے ہیں۔
دیار ہند میں نے جس دم مری صدا نہ سنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بسایا خطہ جاپان و ملک چیں میں نے
یا
قوم نے پیغام گوتم کی ذرا پرواہ نہ کی ۔۔۔۔۔۔۔۔قدر پہچانی نہ اپنے گوہر یک دانہ کی
آہ:بد قسمت رہے آواز حق سے بے خبر۔۔۔۔۔۔۔غافل اپنے پھل کی شیرینی سے ہوتا ہے شجر
آشکار اس نے کیا ،جو زندگی کا راز تھا۔۔۔۔۔۔۔ہند کو لیکن خیالی فلسفہ پر ناز تھا
برہمن سرشار ہے ،اب تک مئے پندار میں ۔۔۔۔۔۔۔۔شمع گوتم جل رہی ہے ،محفل اغیار میں
گرو نانک کو اپنے دور کا عظیم مذہبی وسماجی مصلح مانا جا تا ہے۔نانک نے سکھ مت کے جو بنیادی اصول بتائے ان میں مساوات،بھائی چارہ ،نیکی اور حسن سیرت کو کافی شہرت ملی۔ خدا کے سلسلے میں ان کا عقیدہ وحدانی ہے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ الوہی طاقت تک پہنچنے کا راستہ کسی وسیلے کا محتاج ہے ۔سکھ مت کی تعریف گرو نانک نے یوں کی ہے ” نہ کوئی ہندو ہے اور نہ کوئی مسلمان ہے،نلکہ سب صرف انسان ہیں ،تو مجھے کس کے راستے پر چلنا چاہیے۔خدا نہ ہندو ہے اور نہ مسلمان،اور میں جس راستے پر ہوں ،وہ خدا کا راستہ ہے۔”سنگھا نے سکھ مت کے اوتاری سلسلے کو یوںبیان کیا ہے۔” سکھ مت اوتار کا نظریہ یا پیغمبری کا تصور پیش نہیں کرتا۔بل کہ اس کا محور گرو کا تصور ہے جوخدا کا مظہر نہیں ہوتا اور نا ہی پیغمبر ہوتا ہے۔وہ تو بس ایک روشن روح ہوتا ہے۔” اقبال گرو نانک کے توحیدی تصور سے متأثر ہوکر ان کو نور ابراہیم اور ہند کے مرد کامل کہہ کر مخاطب کیا ہے۔جس کی صدائے وحدت نے ہندستانیوں کو خواب غفلت سے بیدار کیا۔
بت کدہ پھر بعد مدت کے مگر روشن ہوا۔۔۔۔۔۔نور ابراہیم سے آذر کا گھر روشن ہوا
پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے۔۔۔۔۔۔۔ہند کو اک مرد کامل نے جگایا خواب سے
اقبال نے اپنی تخلیقات میں جن مذہبی رہنماوں کا ذکرکیا ہے ان سبھی کے مذہبی تصورات و نظریات میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔خدا کے سلسلے میں ان مذہبی رہنماؤں کا تصور وحدت کا ہے ۔محولہ بالا ادیان کے مطالعہ سے ایک ہی سچ نکل کر سامنے آیا ہے کہ ان تمام مذاہب کے بطن میں ایک ہی فلسفہ پوشیدہ ہے یعنی احترام آدمیت و انسانیت۔اس کے علاوہ ان مذاہب کی تعلیمات اور اصول و عقاید ہیں،جو ان کے عقیدت مندوں نے وضع کیے۔ ان تمام میں مساوات ،نیکی ،حسن سلوک ،بھائی چارگی اور عدم تشدد کو برتنے کی سخت لفظوں میں ہدایت کی گئی ہے۔سبھی دھرموں کے فلسفے و نظریات اعلی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں ۔بس اپنے اپنے مذہب کی سچے من سے اتباع کرنے کی ضرورت ہے۔

About ڈاکٹر محمد راغب دیشمکھ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

Scroll To Top
error: Content is protected !!
Visit Us On TwitterVisit Us On Facebook