اسلامی عقيده اور شريعہ سے ماخوذ ہے از امام اكبر شيخ محمود شلتوت
مترجم / ڈاكٹر بسنت محمد شكرى
فيكلٹى آف آرٹس طنطا، يونيورسٹى مصر۔
اسلام كى نظر ميں انسان كى يہى ہے وضع اور پوزيشن ، اور يہ حالت واضح طور پر بيان كرتى ہے كہ دينِ اسلام انسان كو زندگى ميں آزاد اور صاحب اختيار ديكهنا چاہتا ہے، تاكہ وه خود مختار ہو كر كار ِخير كرے اور ثواب كا مستحق ہو ،اور خود مختار ہو كر برائى كرے تو عقاب كا مستحق ہو، چنانچہ الله رب العزت نے اسے اس اختيار كا مكلف بنايا، اور اس كى جانب اپنے رسول بهيجے تاكہ وه انسان كو سيدهى راه پر چلائيں ۔ پهر الله رب العزت نے انسان كو آزادى دى كہ وه اپنے لئے خير يا شر كے راستے منتخب كرے ، اور اسے خارجى قوت سے بهلائى وبرائى كى طرف نہيں بلايا، كيونكہ اگر الله رب العزت چاہتا تو اسے فطرى بهلائى كے ساتھ پيدا فرماتا، تب انسان برائى كو جان ہى نہيں پاتا، يا اسے برى فطرت پر پيدا كرتا ،تو وه اچهائى جان ہى نہيں پاتا، تو اس وقت وه وہى انسان نہ ہوتا جسے الله نے زمين پر خليفہ بنايا ہے، اپنے دين وشريعت كا مكلف بنايا ہے، اس كے لئے ثواب اورعذاب تياركيا ہے، بلكہ الله رب العزت نے اسے اپنے افعال كا خود مختار پيدا كيا، تاكہ وه اس كى وجہ سے دنيا ميں اپنے كئے كا بدلہ آخرت ميں پا سكے، اور يہ بدلہ عذاب وثواب كى صورت ميں اسى كے برابر ہوگاجسے اس كے نفس نے بهلائى يا برائى سے كمايا ہوگا، جيسا كہ:â يہ جيسے عمل كرتے ہيں ويسا ہى اُن كو بدلہ ملے گا (الاعراف: 147)- اور انسان كى اور اسكے اعضاء كو برابر كيا(7) پهر اسكو بدكارى (سے بچنے) اور پرہيز گارى كرنے كى سمجھ دى (8) كہ جس نے (اپنے) نفس كو پاك ركها وه مراد كو پہنچا(9 )اور جس نے اسے خاك ميں ملايا وه خسارے ميں رہا(10)á(الشمس: 7-10)– بہت سے نصوص قرآن ميں ہيں جو بتاتے ہيں كہ انسان اپنے افعال كا مختار ہے ۔اسے بهلائى يا برائى پر مجبور نہيں كيا گيا ہے ۔