Home / خبریں / جشن نوروز۔سر سبز ہیں گلزار ثمر لا ئے ہیں اشجار

جشن نوروز۔سر سبز ہیں گلزار ثمر لا ئے ہیں اشجار

٭ عینی نیازی کراچی

فیض احمد فیض جیسے بڑے شا عر نے بہار کی آمد پر گلا بوں کے کھلنے کی با ت کی خو شبوکا ذکر کیا تو ہمیں بھی نو روز کے جشن کی یاد آگئی یہ جشن دنیا کے فطری حسن سے محبت کر نے والے اسے سمجھنے و محسوس کرنے والوںکا جشن کہا جا تا ہے جس میں کو ئی منا فرت ،لسانی،مذہبی،اور نسلی تعصب نہیں جس کے بارے میں کبھی کسی جا نب سے کو ئی تنقید نہیں ہو ئی آج جب دنیا قدرتی ماحول کی بقا اور ما ھولیاتی آلو دگی کی با بت تفکر رکھتی ہے کہ ہم اپنے ارد گرد کی دنیا کے حسن سے کس قدر غفلت برت رہے ہیں تو یہ جشن اس شعور کو بیدار کر نے میں بھی مدد دیتی ہے روایت کے مطا بق جشن نوروز 21سے 31مار چ تک جس روز آفتاب برج حمل کے نقطہ اول میں داخل ہو تا ہے جب سردیاں رخصت ہو تی ہیں تو موسم بہار کی آمد سے ان بر ہنہ درختوں کی شا خوںو ٹہنیوں، کو نپلوں، پتوں اور فرش کو نئے سبزے سے ڈھک دیتی ہیں درخت پھلوںسے لد جا تے ہیں خود رو گل لالہ کے گل جا بجا اپنی بہار دکھا تے ہیں قدرت کے انعام بہار و خوش رنگ خوشبووں سے رچے بسے موسم کو جشن نوروز سے یاد رکھا گیا۔جس کی تاریخ آغاز ڈھا ئی ہزار سال پرانی ہے ایرانی سلطنت کے با نی سا ئرس اعظم نے اس کا آغاز کیا سا سانی شہنشاہ اس د ن کو عید کی طرح منا یا کرتے تھے چرا غاں ہو تا، ایک دوسرے کو مبارک باد دی جا تی، قیدیوں کو عام معافی کا اعلان کیا جاتاسا ئرس اعظم نے میڈیوں، لیڈیوںاور با بلیوں جیسی تین بڑی سلطنتوں کے قبضے کے بعد بحیرہ روم ، قدیم مشرق وسطیٰ اور ہندوستان کو بھی اس میں شامل کیا یوں تہذیب و ثقافت کے اثرات وسطی ایشاء پر بھی پڑے افغا نستان ، ایران وسطی ایشیاء سے تعلق رکھنے والو ںنے ہندوستان کو فتح کر کے فارسی زبان و ادب سے بھی متعارف کرایا وہا ںسا ئرس نے اپنے مفتوحہ علا قوں میں جشن نوروز کو بھی متعارف کروایا یہی وجہ ہے کہ پا کستان کے شمالی علا قہ جات ، بلو چستان اور خیبر پختواخواہ میں جہاں فارسی بولے والے بستے ہیں یہ جشن آج بھی جوش خروش سے منا یا جا تا ہے ہمارے فارسی و اردو ادب میں بہار کا ذکر کثرت سے مو جودہے سردیوں سے قبل ہجرت کر نے والے پرندے موسم بہار میں ہزاروں میل کا سفر طے کر کے دوبارہ اپنے علاقوں کا رخ کر تے ہیں تو ان کے استقبال کو رنگ برنگی تتلیاں ہر جانب پھولوں پر منڈلاتی نظر آتی ہیں۔
دنیا کے گیارہ ممالک اس جشن کو کسی کسی طور ضرور منا تے ہیں جن میں افغانستان ،جارجیا،ترکی،آذربائجان،ازبکستان،تاجکستان،ترکمانستان،کر غیستان اور پاکستان شامل ہیں خا ص کر ایرا ن میں تو مذہبی جوش و جذبے سے منا یا جا تا ہے ان کا عقیدہ ہے کہ اسی د ن انسان اور دنیا کو پیدا کیا گیا تھا ایران کے مشہور فارسی اسکالر فارا بی نے اپنی کتاب التفہیم میں دیگر مذاہب کے کیلنڈر کے ساتھ ایران کے نئے دن کا آغاز نوروز کو بڑے وا ضع انداز میں بتا یا ہے وقت کے ساتھ بڑے نشیب و فراز گزرے حتیٰ کہ اس قدیم روایت کو ترک اور منگول حملہ آوروں نے بھی ختم کرنے کی کو شش نہیں کی بڑی سے بڑی بغاوت کے باوجود روایت سے تعلق قا ئم رکھنے کا بڑا خیال رکھا گیا یہ جشن حضرت عیسیٰ علیہ سلام کی آمد سے بھی قدیم ہے اس لئے اسکی کوئی اسلامی حیثیت نہیں لیکن آتش پرست یا پارسی اس بات کے دعویٗ ضرور کرتے ہیں کہ اس کا آغاز ان کے اجداد نے کیا تا ریخ بتا تی ہے کہ بر صغیر میں شہنشاہ اکبر کواس د ن بارہ چیزوں میں تو لا جا تا تھا سونا ، چا ندی ، ابر ریشم،خوشب و یات ، لوہا ، تا نبہ ، جست ،تا تیہ ،گھی، دودھ ، چا ول اور ست نجا(سات اناج) یہ سب چیزیں بعد میں مستحقین میں تقسیم کر دی جا تی تھیںکسی قسم کی مذہبی رسوم کا اس جشن میںکو ئی دخل نہیںاس لئے اس پر کبھی کو ئی تنقید نہیں کی گئی موجودہ دور میں بھی اسے منا نے والے مما لک کے لوگ شہر سے دورچمنستا نوں میں فطرت کے حسن سے قریب کھلے آسمان تلے اپنے خاندان کے ہمراہ گزارتے ہیں بہت سے لوگ عزیزوں اور دوستوں سے ملا قاتیں کرتے گزارتے ہیں مہما نوں کی توا ضع (سا ت سین) سے کی جا تی ہے سیب ،سرکہ ،سنجد ،،سبز (ایک قسم کا پھل ) سمنو (مٹھائی ) سمق خاص سو غات ہیںصا حب حیثیت گوشت سے بنے پکوانوں سے لطف اندوز ہو تے ہیں جب کہ غریب افراداس موسم کے سا گون پر گزارا کرتے ہیںمگر اسے مناتے ضرور ہیں۔
ہم ایک ایسی قوم ہیں جو کسی بھی مو سم کو انجوا ئے کر نے کے بجا ئے اس سے پنا ہ ما نگتی ہے اس میں قصور ہما را بھی نہیںکوئی ادارہ اپنے کام میں مخلص نہیں ایمانداری و محنت نا پید ہے گر می شروع ہو تے ہی ہم بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے پریشان ہو تے ہیں بارشوں میں پورا ملک سیلاب کی لپیٹ میں آجا تا ہے علاقے آفت زدہ قرار دیئے جا تے ہیںشہروں میں سبزہ زار مقفو د ہیں درخت لگا نے کی رو ایت ہم میں بلکل ختم ہو گئی ہے سردیوں میں گیس کی بندش ہے اور خزاں کا موسم تو سارا سال ہما رے مزا جوں پر چھا یا رہتا ہے بہار کب آئی کب رخصت ہو گئی ہم محسوس ہی نہیں کر تے مرزا دبیرنے بھی بہار کی آمد پر اسی شکوے کا اظہار کیا ہے فرما تے ہیں
سر سبز ہیں گلزار ثمر لا ئے ہیں اشجار ۔ بے ؔآب پڑا ہے مگر ایما ن کا گلزار

About ڈاکٹر محمد راغب دیشمکھ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

Scroll To Top
error: Content is protected !!
Visit Us On TwitterVisit Us On Facebook