محمد رکن الدین،استنبول ،ترکی
ترکی ۔ترکی کا مشہور ومعروف تعلیمی دانشگاہ استنبول یونیورسٹی موجودہ وقت میں کئی اعتبار سے اہل ذوق کے توجہ کا مرکز ہے۔استنبول یونیورسٹی ترکی اور دیگر ممالک کے باذوق طلبہ وطالبات کے تعلیمی تسکین کاسب سے بڑا ادارہ ہے۔اسے کئی اعتبار سے دیگر دانشگاہوں سے امتیاز حاصل ہے۔استنبول میں اس کے چار الگ الگ کیمپس ہے،دو میڈیکل کے لیے مختص ہے ،جن میں میڈیکل اور سائنس میں اعلیٰ تعلیم کا بندوبست ہے،دو میں دیگر تمام شعبے ہیں مثلا سائنس،شوشل سائنس،پولیٹیکل سائنس ،جغرافیہ،تاریخ،زبان وکلچروغیرہ۔ان میںسے ایک اہم شعبہ اردو کا ہے۔اردو شعبے میں تقریبا ایک سو طلبہ وطالبات موجودہ وقت میں مندرج ہیں،جن میں بی،اے۔ایم،اے اور پی،ایچ،ڈی شامل ہیں۔اردو شعبے کے صدر عالی وقار پروفیسرخلیل طوق آر اپنے فیکلٹی کے ساتھ شب وروز تدریسی خدمات بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں۔آج شعبۂ اردواستنبول یونیورسٹی،ترکی میں پانچوں ہندوستانی ریسرچ اسکالرس ،محمدرکن الدین مصباحیؔ،مہوش نور،ثناء اللہ،امتیازالحق اور رحمت یونس کو الوداعیہ کے لیے مدعوکیا گیا جن میں صدرشعبۂ اردو پروفیسر خلیل طوق آر کے ساتھ ساتھ دیگر فیکلٹی ممبران میں ڈاکٹر آرزو سورین،ڈاکٹر ذکائی کاردیش،جلال سویدان اورڈاکٹر راشد حق موجود تھے ،ان تمام صاحبان نے تما م ریسرچ اسکالرس کا پرجوش استقبال کیا اورترکی میں اردوزبان وادب کی موجودہ صورت حال سے واقف کرایا۔ساتھ ہی ہندوترکی کے مابین مستحکم رشتے کے لیے دعائیں کی۔ہم تمام احباب اور اس پراجیکٹ کے سرپرست پروفیسر خواجہ اکرام اس کے لیے شعبۂ اردو ،استنبول یونیورسٹی کے ممنون ہیں۔
جواہرلعل نہرویونیورسٹی ،نئی دہلی کے پانچ ریسرچ اسکالرس آج کل ترکی کے دورے پر ہیں۔غالبا آپ تما م احباب واقف ہوںگے کہ یہ دورہ کوئی تفریحی دورہ نہیں ،بلکہ ایک ایک تحقیقی پروجیکٹ کے تحت ہے۔ترکی گورنمنٹ سے ملحق ایک ادارہ جس کا نام گسام ہے ۔یہ ادارہ طلبہ و طالبات خواہ وہ کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہوںانہیں ایک تربیتی پروگرام کے تحت ایک ساتھ اکٹھا کر کے زبان وادب،تہذیب وثقافت کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان ہم آہنگی قائم کرنے کی کوشش میں مصروف ہے ۔گسام ایک متحرک وفعال خودمختار ادارہ ہے ،جسے حکومت ترکی کا تعاون حاصل ہے۔ترکی میں اس طرح کی روایت پہلی دفعہ گسام کے زیر نگرانی شروع ہوئی ہے جو یقینا دونوں ملکوں کے درمیان زبان وتہذیب کے لین دین میں اہم کردار ادا کرے گا۔ہندوستانی زبانوںکا مرکز،جواہرلعل نہرو یونیورسٹی ،نئی دہلی کے متحر ک وفعال استادپروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین اور پروفیسر خلیل طوق آر،صدر شعبہ اردو استنبول یونیورسٹی،ترکی کی مشترکہ کوششوں سے اس اہم پروجیکٹ کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔اور یہ دونوں صاحبان اس پروجیکٹ کے روح رواں ہیں۔ان دونوں کی انتھک جد وجہد سے ہندوستانی زبانوں کا مرکز،جواہر لعل نہرویونیورسٹی کے پانچ ریسرچ اسکالرس کامیاب دورہ کرکے واپس ہونے والے ہیں۔ان کے ساتھ ہی پانچ ترکی کے ریسرچ اسکالرس ہندوستان تشریف لا رہے ہیں،اس طرح دونوں ممالک کے مابین علمی وثقافتی تعلقات میں مزید بہتری کی امید ہے۔
ترکی دنیا کے چند طاقتور ملکوں میں سے ایک ہے ۔جنہیں اپنی زبان اورتہذیب وتمدن بے حد عزیز ہے۔انہیں ترکی النسل ہونے پر فخر ہے ۔اورہونا بھی چاہیے ۔ترکوںکی بہادری ،ان کے تابناک ماضی ،خوش حال اورروشن مستقبل کے تعلق سے جوکچھ بھی اپنے اساتذہ اوراحباب سے سنتے اورکتابوں میں پڑھتے آئے ہیں،انہیں یہاں قریب سے دیکھنے کو ملا ۔ترکیوں نے جدید سائنس اورٹیکنالوجی کی تعلیم اپنی زبان میں بہت ہی منظم شکل میں محفوظ کر رکھا ہے۔اس کے باوجود ہندوستان سے اردوطلبہ وطالبات کومدعوکرنا اپنے آپ میںکسی کرشمہ سے کم نہیں ۔اردوزبان وادب کی سمت ورفتار کا تعین اب آسان نہیں۔آج پوری دنیا میں اردوزبان وادب کے تعلق سے لوگ سوچ رہے ہیں۔کیایہ خود بخود ہوگیا یا اس کے پیچھے کوئی مرد مجاہد ہے ۔؟کون ہے جودیار غیر میںہندوستانی تہذیب وثقافت کی زبان اردو کے فروغ کے لیے سینہ سپر ہے ؟ظاہر ہے ان ممالک میںبغیر کسی کی سرپرستی کے یہ تحریک ناممکن ہے ۔اس فہرست میں چند لوگوں کا نام لیا جاسکتاہے۔ان میں خادم اردوپروفیسر خواجہ اکرام الدین یقینا سر فہرست ہے ۔ان بستیوں میں اردو کا نام لیتے ہی لوگ پروفیسر خواجہ اکرام کا نام لینے لگتے ہیں،اس قول میں کوئی مبالغہ نہیں یہ ہماراذاتی مشاہدہ ہے ۔اس لیے ہم تما م احباب اس عظیم کاوش کے لیے استاد محترم کو سلام کرتے ہوئے مشکور ہیںکہ انہوں نے دیار غیر میںہندوستانی تہذیب وثقافت کی زبان ،اردوکے لیے اتنی جد وجہد کی ۔ہمیں خوشی ہے کہ استاد محترم نے یہ موقع فراہم کیا کہ ہم ترکی میں ہندوستان کی نمائندگی کررہے ہیں۔اوراس سے بھی زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ ہم اردو کی نمائندگی کر رہے ہیں۔