٭پروفیسر شہاب عنایت ملک
شعبۂ اُردوجموں یونیورسٹی
9419181351
خالدحسین
برصغیر ہندوپاک میں خالد حسین کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔پنجابی افسانہ نگار کی حیثیت سے آپ اپنی افسانہ نگاری کی وجہ سے خاصی شہرت کے حامل ہیں بل کہ اگر میں یہ کہوں کہ اپنے فن کی وجہ سے آپ دونوں طرف کے پنجاب میں اپنا لوہا منوا چکے ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ہندوستانی پنجاب کی کئی دانش گاہوں میں آپ کی کہانیاں نصاب کا حصہ بھی ہیں اور ان کہانیوں پر خاصا کام بھی ہوچکا ہے۔اُردو میں بھی خالد حسین کے تین افسانوی مجموعے شائع ہوکر دادِ تحسین حاصل کرچکے ہیں۔’’اشتہاروں والی حویلی‘‘’’ٹھنڈی کانگڑی کا دھواں‘‘اور’’ستی سر کا سورج‘‘خالد حسین کے اُردو افسانوی مجموعے ہیں۔ان تینوں مجموعوںپر شعبۂ اُردو جموں یونی ورسٹی تحقیقی کام بھی کراچکا ہے۔آپ کے مراسم پنجابی اور اُردو کے بڑے بڑے شاعروں ،ادیبوں اور افسانہ نگاروں سے رہے ہیں اور اب بھی ہیں۔حکومت پنجاب نے آپ کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے سب سے بڑے ادبی ایوارڈ سے بھی نوازا ہے۔یوں تو خالد حسین صاحب متعدد دفعہ پاکستان اور پاکستانی پنجاب کا دور ہ کرچکے ہیں لیکن اُن کا وقفہ کم تھا اس بار جو وہ پاکستان اور پاکستانی پنجاب کے دورے پر گئے تو پھر کافی دنوں کے بعد واپس لوٹے۔وہاں ان کے اعزاز میں متعدد ادبی تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔اُن کی نئی کتاب کا رسم اجراء بھی لاہور میں ہوااورانھوں نے متعدد شہروں کا دورہ بھی کیا۔
پنجابی کے اس قد آور نقاد نے سیاست ،ادب اور مختلف تہذیبوں پر کھل کربات کی۔یہ دستاویزی انٹرویوقارئین کی معلومات کے لیے پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں:
شہاب:خالد حسین یوں تو آپ متعدد بار پاکستان اور پاکستانی پنجاب کا دورہ کرچکے ہیں لیکن اس دفعہ آپ کافی دیر کے بعد پاکستان کے ادبی دورے پر گئے۔قارئین کی معلومات کے لیے ان دوروں سے متعلق اظہار خیال کریں؟
خالد حسین:آپ نے درست کہا کہ میں کئی بار پاکستان اور خصوصاًمغربی پنجاب کا دورہ کرچکا ہوں۔اس کے علاوہ پاکستانی انتظام والے کشمیر کے اضلاع مظفر آباد ،میر پور،کوٹلی اور بمبر بھی جاچکا ہوں۔سب سے پہلے ۲۰۰۴ء میں،میں ہندوستانی ادیبوں،شاعروں اور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے رفقاء کے ساتھ بھارتی وفد کے ایک ممبر کے طور پر پاکستان گیا تھا جس کی سربراہی اُس وقت اور آج کے وزیر اعلیٰ پنجاب کیپٹن امریندر سنگھ کررہے تھے۔یہ وفد عالمی پنجابی کانفرنس میں شرکت کے لیے لاہور،قصور،راولپنڈی اور دیگر شہروں میں گیا تھا۔ادبی پروگرام کے علاوہ رنگا رنگ ثقافتی پروگراموں میں متحدہ پنجاب کے تمدن اور لوک ورثا کو ان پروگراموں میں اُجاگر کیا گیا تھا۔دوسرے سفر کا ذکر کرنا اس لیے ضروری ہے کہ وہ ایک تاریخی فیصلے کے تحت ہوا تھا۔یہ بات ۷/ اپریل ۲۰۰۵ء کی ہے جب میں کشمیر سے بذریعہ بس پاکستانی انتظام والے کشمیر میں گروپ لیڈر کی حیثیت سے داخل ہوا اس کا ذکر آگے چل کر تفصیل سے کروں گا۔فی الحال میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اب تک میں آٹھ بار پاکستانی پنجاب کے مختلف شہروں کا دورہ کرچکا ہوں ۔آخری بار میں ۲۰/جنوری ۱۹۱۸ءکو واہگہ باڈر پار کرکے لاہور پہنچا۔اب کی بار میرے دورے کا مقصد میرے نئے پنجابی افسانوی مجموعے’’عشق ملنگی‘‘کی رسم رونمائی کی تقریب تھی۔اس سلسلے میں پاکستانی پنجاب کے محکمہ اطلاعات وثقافت کی طرف سے ان کے ذیلی ادارئے پنجاب ’’ لینگویجز،آرٹ اور کلچر‘‘نے اس افسانوی مجموعے کی رسم رونمائی کی تقریب قذافی سٹیڈیم لاہورکے دفتر میں ۲۷/جنوری ۲۰۱۸ء کو منعقد کی۔اس تقریب میں پاکستانی پنجاب کے ادیبوں،اعلیٰ صحافیوں اور فلم سے وابستہ ہستیوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔اعلیٰ صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار مجیب الرحمان شامی نے تقریب کی صدارت کی جبکہ پنجابی نقاد وشاعر مشتاق یوسفی ،پنجابی فلم کے پروڈیو سر ،ڈائریکٹر الطاف حسین اور حسن عسکری ،جیو نیوز چینل کے پروڈیوسر اور ’’خبر ناک‘‘کے انچارج اور کالم نگار طاہر سرور میر’’دنیا ‘‘ٹیلی ویثرن چینل سے وابستہ تجزیہ نگار وصحافی اجمل جامی ،پنجابی ادیب ومحقق اقبال قیصرکے علاوہ’’ لینگو یجز آرٹ اور کلچر‘‘(پِلاگ)کی ڈائریکٹر جنرل اور مشہورپنجابی شاعرہ صغرا مہدی بھی ایوانِ صدارت میں تشریف فرما تھیں۔
اس محفل میں’’عشق ملنگی‘‘پر تین مقالات پڑھے گئے۔پہلا مقالہ اجمل جامی نے پڑھا۔دوسرامقالہ مشہور پنجابی افسانہ نگار اور سیکرٹری پنجابی ادبی بورڈ محترمہ پروین ملک نے پڑھا جبکہ تیسرا مقالہ پنجابی شاعر ،محقق اور نقاد اقبال قیصر نے پڑھا۔اس کے علاوہ حاضرین میں سے چھ ادیبوں نے میرے افسانوں پر زبانی اظہار خیال بھی کیا۔اس تقریب میں ڈیڑھ سو سے زائد ادبی دنیا سے وابستہ ادبی شخصیات نے شرکت کی۔میرے فنی سفر اور خصوصاً ’’عشق ملنگی‘‘ کے حوالے سے طاہر سرور میر،فلمی شخصیات الطاف حسین اور حسن عسکری اور مشتاق شامی نے پنجابی ادب،ثقافت اور صوفیانہ شاعری پر اظہار خیال کرتے ہوئے میری کئی کہانیوں کا ذکر بھی کیا۔انھوں نے میری کہانیوں کے اچھوتے پلاٹ اور بامحاورہ زبان کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کی یونی ورسٹیوں میں بھی میرے فن اور شخصیت پر کام ہونا چاہئے کیوں کہ ہندوستانی پنجاب اور جموں وکشمیر کی دانش گاہوں میں کافی کام ہوچکا ہے۔بعد ازاں ’’پِلاگ‘‘کی طرف سے مہمانوں کی خاطر تواضع کی گئی۔
شہاب:پاکستان کے چند اہم شہروں کی تہذیبی اور ادبی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے ہمارے قارئین یہ بھی جاننا چاہیں گے کہ آپ نے اس دفعہ کن شہروں کا دورہ کیا اور کیا ان شہروں میں آپ کے اعزاز میں ادبی تقاریب کا انعقاد بھی کیا گیا؟
خالد حسین:اس سفر سے پہلے بھی میںپاکستانی پنجاب کے متعدد شہروں میں جاچکا ہوں اور پنجابی ثقافت،لوک ورثا، صوفیائے اکرام کے کلام سے متعلق مفصل جانکاری حاصل کرنے کے لیے ان کی درگاہوں پر حاضری دینے کے علاوہ کئی ایسے تاریخی مقامات بھی دیکھے جو ہندوستانی ثقافت اور ماضی کی شاندار تہذیب کا حصہ رہے ہیں۔میں نے ساہی وال میں ہڑپا کا دورہ کیا اور وہاں کے میوزیم میں اُن نوادرات کا مشاہدہ کیا جو پانچ ہزار سال پرانی ہندوستانی تہذیب کا انمول حصہ رہے ہیں۔میں نے کئی میلوں پر پھیلی اُس کھدائی کو بھی دیکھا جہاں سے یہ نوادرات برآمد ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ میں نے راولپنڈی سے تقریباً ۳۰ کلومیٹر دور ٹیکسلا کا وہ تاریخی مقام بھی دیکھا جہاں کبھی ٹیکسلایونی ورسٹی ہوا کرتی تھی اور ایک شہر آباد تھا۔اس سارے علاقے کی پاکستانی سرکار نے دیوار بندی کی ہوئی ہے اور اندر محلات ،تالاب،بدھ مندر،بازار اور مکانات کے نشانات چاروں طرف ماضی کی ’’گندھارا‘‘تہذیب کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہاں کھدائی کے دوران جو نوادرات ملے ان کو ٹیکسلا کے میوزیم میں محفوظ رکھا گیا ہے۔ان میں مہاتما گوتم بدھ کی مورتیاں،کسانی زندگی سے وابستہ مختلف اوزار،زیورات،سکے اور پالی زبان میں لکھے بوجھ پتر،پیتل پر پالی اور خوشتری رسم الخط میں کنندہ تحریریں بھی شامل ہیں۔اس کے علاوہ اس زمانے کے برتن اور فنِ تعمیر سے متعلق حیران کن آلات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔اس زمانے میں کپڑے پر کی گئی نقش نگاری بھی کمال کی ہے۔
ہڑپا اور ٹیکسلا کے علاوہ مہنجوداڑو کے نوادرات کو دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے سیاح یہاں آتے ہیں اور ہندوستان کے امیر تہذیبی ورثے کو دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں اور پھر اپنے سفر ناموں اور کتابوں میں اس کا بھر پور ذکر بھی کرتے ہیں۔میں نے چکوال شہر کے پاس کٹاس راج کا وہ مندر اور تالاب بھی دیکھا ہے جہاں ہر سال میلہ لگتا ہے اور ہندوستان سے سینکڑوں بھگت اس میں شرکت کرتے ہیں۔’’کھاریاں‘‘اور’’چیلیاں‘‘جنگی میدان بھی دیکھے ہیں جہاں انگریزوں اور سکھوں کے درمیان خون ریز جنگیں ہوئی تھیں اور انگریز فوجیوں کا وہ قبرستان بھی دیکھا جس میں انگریز فوجیوں کو دفن کیا گیا ہے۔
میرے دوست ڈاکٹر اظہر محمود ماہر امراض جلد اورجنھوںنے پنجابی لسانیات میں’’ ایچ ۔اے۔ روز ‘‘کی خدمات پر شاندار مقالہ لکھ کر حال ہی میں پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے کی وساطت سے میں نے راجہ پورس اور سکندر کے درمیان ہونے والی لڑائی کا وہ میدان بھی دیکھا ہے جہاں پورس کو شکست ہوئی تھی۔یہ مقام دریائے اٹک کے پاس ہے ۔اس کے علاوہ ’’گرودوارہ ننکانہ صاحب‘‘’’ڈیرہ صاحب‘‘اور’’پنجہ صاحب‘‘کی بھی زیارت حاصل کرچکا ہوں ۔’’پنجہ صاحب‘‘ضلع راولپنڈی کے قصبہ حسن ابرال میں ہے جہاں سے ٹیکسلا صرف پندرہ کلو میٹر دور ہے۔اس کے علاوہ صوفیائے اکرام بلے شاہ(قصور)،شاہ حسین،میاں میر،سلطان باہو،وارث شاہ اور میاں محمد بخش کی درگاہوں کی زیارت بھی کرچکا ہوں۔یہاں یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ حضرت میاں محمد بخش جموں وکشمیر کے باشندہ تھے اور میر پور سے تیرہ کلو میٹر دور کھڑی شریف میں ان کی شاندار زیارت موجود ہے جہاں صبح وشام زائرین کا لنگر پروسا جاتا ہے۔اس کی دیکھ ریکھ کا انتظام پاکستانی انتظام والے کشمیر کی حکومت کرتی ہے۔
اب کی بار میں لاہور کے علاوہ گجرات ،میرپور،رالپنڈی اور اسلام آباد گیا۔میر پور میں میاں محمد بخش لائبریری میں ادبی تنظیم’’سخن کدہ‘‘کی دعوت پر گیا۔اس تنظیم نے میرے اعزاز میں خصوصی نشست کا اہتمام کیا تھاجس میں ،میں نے اپنا نیا افسانہ’’مولاں دا سالن‘‘پڑھا۔اس نشست میں کئی شاعروں نے اپنا کلام بھی پیش کیا۔
میر پور کے سابقہ کمیشنر جناب شوکت محمد نے حاضرین سے میرا تعارف کروایا جبکہ راجوری کے موضع ساج سے تعلق رکھنے والے پروفیسر رفیق احمد نے راجوری سے متعلق یادشتیں سنا کر سامعین کو محظوظ کیا۔اس کے علاوہ پاکستان اکیڈمی آف لیٹرس اسلام آباد کے دفتر میں مشہور کہانی کار ملک مہر علی کی وساطت سے ایک ادبی نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں وہاں کے ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ روبرو ہوا۔لاہور میں مشہور ادیب وپنجابی زبان کو سرکاری سطح پر لاگو کرانے والی تنظیم سے وابستہ احمد رضا نے میرے لیے اپنے گھر میں ایک ادبی محفل سجائی جس میں پنجابی کے مایۂ ناز شاعربابا نجمی کے علاوہ طاہر سرور میر اور دوسرے حضرات نے شرکت کی۔اسی شام مشہور کشمیری سیاست دان اور جموں نواسی ایچ ۔اے خورشید جو قائد اعظم محمد علی جناح کے پرئیویٹ سیکٹری اور پاکستانی کشمیر کے صدر بھی رہے ہیں کے بھتیجے عثمان صاحب اور اُن کی رفیقہ ٔ حیات انتساب رانو نے میری آمد پر خصوصی محفل کا اہتمام کیا جس میں مشہور پنجابی گائکہ تحسین سکینہ نے اپنی پر سوز آواز میں پنجابی صوفیائے اکرام کا کلام پیش کیا۔اس کے علاوہ اس محفل میں پاکستانی سپریم کورٹ کے سابقہ جج جناب جواد خواجہ اور ان کی بیگم محترمہ بینہ خواجہ نے جہاں اپنی شرکت سے محفل کو اعزاز بخشا وہیں بینہ خواجہ اور ان کی تین بیٹیوں نے وارث شاہ کی’’ہیر‘‘کو نئے انداز میں گا کر محفل لوٹ لی۔یہاں میری ملاقات مشہور اردو افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی صاحبزادی محترمہ نزہت منٹو سے ہوئی جنھیں مل کر مجھے ایسا لگا کہ میں منٹو سے مخاطب ہوں۔منٹو کی زندگی اور ان کے فن کے بارے میں سیر حاصل گفتگو ہوئی اور انھوں نے اپنی پرُ سوز آواز میں’’مومن خان مومن‘‘اور حبیب جالب کا کلام بھی پیش کیا۔یہاں پنجابی کے مشہور شاعر جناب افضل ساحل نے اپنے کلام سے محفل کا دل جیت لیا ۔یہ محفل کشمیری وازوان کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔اگلے دن میں جناب طاہر سرور میر کے ہمراہ مشہور تھیٹر اور ٹی وی کے ادا کار جناب سہیل احمد بٹ سے ملاقات کرنے اُن کی رہائش گاہ ماڈل ٹاون پہنچا۔سہیل احمد ’’دنیا‘‘ٹی وی چینل میں’’حسب حال‘‘میں عزیزی کا کردار ادا کرتے ہیں۔انھوں نے لا تعداد اسٹیج ڈراموں میں بھی حصہ لیا ہے اور ٹیلی ویثرن کے متعدد ڈراموں میں بھی کام کرچکے ہیں ۔حال ہی میں انھوں نے ڈراما’’اُلو برائے فروخت نہیں‘‘میں غضب کی ادا کاری کی ہے۔ان کاپنجابی ڈراما’’بابا ڈانگ‘‘ہر پنجابی گھر میں دیکھنے کو ملے گا۔سہیل صاحب کشمیری ہیں۔میں نے ان کو اپنی کتاب ’’عشق ملنگی‘‘پیش کی اور ان کے ساتھ پورا دن گذارا۔رات کو وہ مجھے اور طاہر سرور میر کو پانچ ستارہ ہوٹل’’آواری‘‘میں عشائیہ کے لیے لے گئے۔انھوں نے مجھے تحائف سے بھی نوازااور مجھے گلبرگ میں اپنے رشتہ داروں کے گھر ڈراپ کر گئے ان کے ساتھ میری ملاقات کئی اعتبار سے اہم رہی۔
شہاب:خالد صاحب آپ پنجابی کے ایک نامور افسانہ نگار ہیں۔پاکستانی پنجاب میں جو پنجابی ادیب وشاعر ادب تحریر کرنے میں مصروف ہیں۔ہمارے قارئین کو اُن سے متعارف کرائیں؟
خالد حسین:پاکستان میں پنجابی ادب کے مایہ ناز ادیبوں اور شاعروں میں ڈاکٹر فقیر محمد فقیر،پروفیسر شہباز ملک،شریف کجائی،آصف محمد،عباس جلال پوری،فخر زماں،مستنصر حسین تارڑ،انور علی،احمد راہی،وارث لدھیانوی،استاد دامن، حزیں لاہوری،مولا بخش،کرنل سردار محمد خان،بابا نجمی،منیر نیازی اور بے شمار ایسے نام ہیں جنھوں نے پنجابی ادب کو اپنی تحریروں سے مالا مال کیا ہے اور کررہے ہیں ۔ان کے علاوہ صوفیائے اکرام کا کلام پنجابیوں کی روح کی خوراک ہے۔پنجابی کے بابا آدم اور چشتیہ سلسلے کے تیسرے خلیفہ حضرت مسعود الدین فرید گنج شکر جنھیں ہم لوگ بابا فرید کے نام سے جانتے ہیں ان کا کلام ہزار سال پرانا ہے ۔ان کا کلام سکھوں کی مقدس کتاب’’گرو گرنتھ صاحب‘‘میں بھی شامل کیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ وہاں پنجابی فلموں کا بھی پنجابی زبان کو فروغ دینے میں اہم حصہ رہا ہے۔پاکستانی پنجاب میں پنجابی کے فروغ کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ۱۹۴۷ء سے لے کر ۲۰۰۰ء تک ۲۵ ہزار کتابیں پنجابی میں تحریر کی جاچکی ہیں جن کی فہرست دوجلدوں میں ڈاکٹر شہباز ملک نے شائع کی ہے۔
شہاب:پاکستانی پنجابی ادیب کن موضوعات پر ادب تخلیق کررہے ہیں۔
خالد حسین:پاکستانی پنجابی ادیب ادب کی ہر صنف میں طبع آزمائی کرتے ہیں ۔ناول نگاری،افسانہ نگاری اور نثر نگاری کی دیگر اصناف میں بہت کچھ لکھا جارہا ہے اس کے علاوہ پاکستانی پنجاب کی پنجابی شاعری اعلیٰ پایہ کی ہے جس میں زبان وبیان اور تخیل کی نئی جہتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔اکثر موضوعات پاکستانی سماج اور سیاست میں پھیلی منفی قدروں کی عکاسی کرتے ہیں۔کہانیوں میں دیہاتی زندگی کے مسائل اور غریب اور پسماندہ لوگوں کی افلاس زدہ زندگی کے مختلف پہلوؤں پر بھی طبع آزمائی کی جاتی ہے۔پاکستانی پنجابی ادب میں سے ایک خوبصورت جہت اُن کی طنز ومزاح نگاری ہے جس کا کوئی جواب نہیں اور یہ پاکستانی پنجابی ادب کی نمایاں خصوصیت ہے۔پاکستانی پنجابی ادب میں نئے لکھنے والوں کی سوچ میں ایک بہت بڑی تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے مثلاً آج کا پنجابی ادیب پنجاب کا ہیرو’’پورس‘‘کو مانتا ہے۔دلا بھٹی اور احمد خان کھرل کو پنجابی بہادری اور شجاعت کا نمائندہ مانتا ہے۔اس کے علاوہ پاکستان کے نئے ادیب بھگت سنگھ کو اپنا ہیرو مانتے ہیں کیوں کہ وہ پیدا بھی پاکستانی پنجاب میں ہوا اور آزادی کی جدو جہد بھی لاہور سے شروع کی اور اسے پھانسی بھی لاہور میں ہوئی جس جیل میں بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی اسے لوگوں نے توڑ دیا اور آج اُس کا نام ’’شادمان چوک‘‘ہے جسے پنجابی ادیبوں اور پنجابیت کے مدعیوں نے بھگت سنگھ چوک کا نام دینے کے لیے کافی جدوجہد کی اور بل آخر پنجاب اسمبلی نے ’’شادمان چوک‘‘کا نام’’بھگت سنگھ چوک‘‘رکھنے کا فیصلہ لے لیا ہے۔پاکستانی پنجابی ادیب محمود غزنوی اور محمد غوری یا محمد بن قاسم کو اپنا ہیرو نہیں مانتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ لوگ حملہ آور تھے اور انھوں نے سب سے پہلے پنجاب کو روندا اور پنجابی خلقت کا قتل عام کیا اور پنجاب کو روند کر ہی دلی تک پہنچے لہذا یہ ہمارے ہیرو کیسے ہوسکتے ہیں۔یہ بدلاؤ بنیاد پرست لوگوں اور سیاسی تنظیموں کو قابل قبول نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں اس سوچ کے حق اور مخالفت میں آئے دن مباحثے ہوتے رہتے ہیں۔
شہاب:ظاہر ہے کہ آپ نے پاکستان کے مختلف شہروں کا دورہ کیا۔وہاں لوگوں سے ملے۔کشمیر کے حالات کے بارے میں عام لوگوں کے وہاں کیا تاثرات ہیں اور کیا پاکستانی پنجابی ادیب کشمیر کے مسائل کی عکاسی اپنی تخلیقات میں کررہے ہیں؟
خالد حسین:بہت عمدہ سوال پوچھا آپ نے۔گو کہ یہ حقیقت ہے کہ کشمیر دونوں ملکوں کے درمیان متنازعہ مسٔلہ ہے اور دونوں ملک اس کو اپنا اٹوٹ انگ یا شہ رگ قرار دیتے ہیں اور کشمیر کے حوالے سے ہی تین جنگوں کے باوجود مسٔلہ جوں کا توں ہے اور دونوں اطراف سیاسی اور فوجی ٹھکیدار اس مسٔلے کو حل کرنے کے بجائے الجھائے ہوئے رکھے ہیں لیکن یہ سب سیاسی سطح پر ہے جبکہ عوامی سطح پر لوگ مل جل کر اور امن سے رہنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستانی پنجاب میں شعراء وادباء نے کشمیر پر کوئی زیادہ ادب تخلیق نہیں کیا۔ا ن کا محور دونوں پنجابوں کے تعلقات،سانجی زبان،سانجا سنگیت اور ماضی کی مشترکہ قدروں،لوک ورثا تک محدود ہے جبکہ پاکستانی انتظام والے کشمیر کے ادیب وشاعر کشمیر کے حوالے سے جو ادب تخلیق کررہے ہیں اس میں سیاسی،سماجی اور فراق کی باتیں زیادہ ملتی ہیں۔
شہاب:خالد صاحب ادب ہمارے پنجاب میں بھی تخلیق ہورہا ہے اور پاکستانی پنجاب میں بھی۔کیا وہاں ہمارے پنجاب سے زیادہ اچھا ادب تخلیق ہورہا ہے۔دوسرے لفظوں میں ،میں اس سوال کو یوں بھی دھوراتاہوں کہ دونوں طرف لکھے جانے والے ادب کا مختصراً موازنہ کیجئے؟
خالد حسین:پروفیسر شہاب صاحب بہت اچھا سوال پوچھاآپ نے،موٹے لفظوں میں کہوں تو پاکستان میں اعلیٰ پایہ کی شاعری ہورہی ہے جبکہ نثر کے میدان میں ہندوستانی پنجاب میرے نکتہ نگاہ سے اُن سے آگے ہے خاص طور پر موضوعات کے حوالے سے۔ہندوستانی پنجاب نے ۱۹۴۷ء کی تقسیم کے بعد بہت سارے سیاسی اُتار چڑھاؤ دیکھے۔پنجابی صوبے کی تحریک چلی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ علاقوں کو لے کر دو ریاستیں بنائی گئیں یعنی ہماچل اور ہریانہ۔مرکزی سرکار کا یہ قدم پنجاب کے لوگوں کو راس نہیں آیا کیوں کہ انھوں نے دیکھا کہ ہندؤں کے اکثریتی علاقوں کو ہماچل اور ہریانہ میں زعم کرکے پنجاب کو چند اضلاع تک محدود کردیا گیا۔اس کے بعد اسّی کی دہائی میں خالصتان کی تحریک چلی ۔گولڈن ٹیمپل پر فوجی چڑھائی ہوئی اور اکال تخت کھنڈرات میں تبدیل کیا گیا۔خالصتانی تحریک میں ہزاروں لوگ شہید ہوئے اور پھر اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہندو سکھ فسادات میں تقریباً تین ہزار سکھوں کو قتل کیا گیا۔کانپور اور یوپی کے کئی اضلاع میں سکھوں کا بھاری جانی ومالی نقصان ہوا۔یہ سب باتیں ہندوستانی پنجاب کے ادیبوں اور شاعروں کے موضوعات بنے خصوصی طور پر ناول اور افسانوں میں یہ موضوعات بڑی شدت کے ساتھ دیکھے جاسکتے ہیں جبکہ پاکستانی پنجاب میں تین مارشل لا لگے خاص طور پر ضیاء الحق کا مارشل لا اس نوعیت سے الگ تھا کہ گیارہ سال تک مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا گیا۔طالبان اور القاعدہ جیسی تنظیموں کو امریکی مال وفوجی امداد سے تربیت دی گئی اور روس کے خلاف افغانستان میں امریکہ نے ان کا بھر پور استعمال کیا۔جنگ ختم ہونے کے بعد امریکہ نے طالبان اورالقاعدہ اور یہاں تک کہ پاکستان سے بھی منہ موڑ لیااس کا نتیجہ یہ نکلا کہ طالبان اور دیگر بندوق برداروں نے اپنے ہی لوگوں کو نشانہ بنانا شروع کیا اس کا اثر وہاں کے کلچر،ادب اور سنگیت پر بھی پڑا۔یوں کہہ لیں کہ ان حالات نے فنون لطیفہ کی کمر توڑ کر رکھ دی تو غلط نہیں ہوگا ۔پنجابی ادیبوں نے اس تمام صورت حال کو اپنا موضوع بنایا اور علامتوںاوراستعاروں کے ذریعے اپنی بات کہنی شروع کی۔میں صرف ایک ادیب کا ذکر کرنا چاہوں گا جنھوں نے اُس دور میں جب ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی ان حالات کو فخر زماں نے اپنے ناول’’بندھی وان‘‘میں بیان کیا۔یہ ناول جیل سے سمگل کرکے ہندوستان لایا گیا اور سب سے پہلے ہندوستانی پنجاب میں شائع ہوا۔فخر زماں کا پہلا ناول’’ست گواچے لوک‘‘بھی علامتی انداز میں لکھا گیا اس کے علاوہ بھی متعدد ناول لکھے گئے جن میں پاکستانی عامریت کا ذکر کیا گیا ہے۔ان میں سے متعدد ناول ہندوستانی پنجاب کی یونی ورسٹیوں کے نصاب کا باقاعدہ حصہ ہیں۔کوڑوں کی سزا شاعروں ،ادیبوں اور فن کاروں نے برداشت کی۔مہدی حسن کو تو سب جانتے ہیں۔
شہاب:خالد صاحب پاکستان میں اردو کی کیا صورت حال ہے۔اُردو وہاں کی ملکی اور سرکاری زبان ہے ۔کیا اس زبان کو سرکاری سطح پر اس کا حصہ مل رہا ہے یا یہ بھی ہندوستان کی طرح نظر انداز کی جارہی ہے؟
خالد حسین:پاکستان میں اردو ریاستی وملکی زبان ہے جبکہ وہاں چار قومی زبانیںبھی ہیں یعنی سندھی،بلوچی،پشتو(ہند کو) اور پنجابی لیکن سرکاری سطح پر پنجاب میں خاص کر اُردو کا ہی چلن ہے۔اسمبلی عدالت،محکمہ مال،پولیس اور دیگر محکموں کی کاروائی اُردو میں ہوتی ہے اس کی وجہ سے پنجاب میں اُردو کے تئیں مخالفت کی ہوائیں بھی چلتی رہتی ہیں اکثر پنجابی سیاست دان پنجابی لاگو کرنے کے حق میں جلسے جلوس بھی نکالتے ہیں لیکن ابھی تک ان کی تحریک باآور ثابت نہیں ہو پائی ہے حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ پنجاب میں پنجابی میڑک سے یونی ورسٹی سطح تک پڑھائی جارہی ہے لیکن اُردو میں حوصلہ افزاء کام ہورہا ہے۔پاکستانی پنجاب نے اُردو کو کئی سورج اور چاند تارے دیئے ہیں جیسے ممتاز مفتی،عبداللہ حسین،احمد ندیم قاسمی،منٹو اور انتطار حسین وغیرہ۔پاکستان کے دوسرے صوبوں میں بھی ادیب وشاعر بہترین ادب تخلیق کررہے ہیں کہیں نہ کہیں ان صوبوں میں سرکاری زبان کی عزت بھی کی جاتی ہے۔مجموعی طور پر پورے پاکستان میں اُردو کی صورت حال مایوس کن نہیں ہے۔
شہاب:خالد صاحب آپ کا میں نے بہت زیادہ وقت لیا اس کے لیے بہت شکریہ۔آخری سوال پوچھنا چاہتا ہوں ۔ہندوستان وپاکستان میں امن کی ہواؤں کو فروغ دینے میں ادیب وشاعر کی کس طرح کی اہمیت بن جاتی ہے؟
خالد حسین:ہندوستان اور پاکستان کی سیاست ملک کی تقسیم کے ساتھ ہی نفرت ،بغض اور عداوت پر مبنی رہی ہے۔تین جنگیں بھی دونوں ملکوں کے رہنماؤں کو عقل ِ سلیم نہ دے سکیں میرا ایک افسانہ ہے جس کا پہلا جملہ یہ ہے۔’’ہندوستان اور پاکستان کی سیاست کا کیا کہنا کہ لوہار کی سانس کبھی آگ میں اور کبھی پانی میں ہوتی ہے۔‘‘۱۹۴۷ء کے ناحل شدہ مسائل کی گٹھری ان کے کاندھوں پر سوار ہے جس کا بھگتان عام لوگوں کو کرنا پڑتا ہے لیکن عوامی سطح پر لوگ آپس میں ملنا چاہتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ کاروبار کرنا چاہتے ہیں اپنے آباواجداد کے گھر اور زمینیں دیکھنا چاہتے ہیں ۔دونسلیں اسی آس اُمید میں ختم ہوگئیں کہ ایک نہ ایک دن وہ اپنے گھر واپس جائیں گے اور آئندہ کئی نسلیں اسی آس اُمید میں ختم ہوجائی گی۔میری رائے ہے کہ دونوں ملکوں کے رہنما لوگوں کی خواہشات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے مسٔلے کو حل کریں۔ادیبوں،شاعروں اور فن کاروں کا وطن کوئی مخصوص جگہ نہیں ہوتی ہے بل کہ یہ حساس فن کار پوری دنیا کو اپنا وطن مان کر محبت کی شمع ہی کو روشن کرتے ہیں لیکن حالات ایسے بنا دئیے جاتے ہیں کہ پاکستانی کلا کار ہندوستان سے نکالے جاتے اور ہندوستانی پاکستان سے۔اس صورت حال کو ہر حالت میں تبدیل ہونا چاہئے کیوں کہ محبت کے نغمے گانے والے ادیب وفنکار کی دونوں طرف کی آوا جاوی محبتوں میں اضافہ ہی کرے گی۔ورنہ ایک وقت آئے گا کہ نوجوان نسل دیوار برلن کی طرح یہاں بھی سیاسی دیواروں کو گرا دے گی اور وہاں بھی۔
٭٭٭