٭ اسماء اسمعی
اعلیٰ پائے کے افسانہ نگار حامد سراج سے بات ہو رہی تھی تو انہوں نے ایک کام میرے ذمے لگایا کہ رابعہ الربا جن کا افسانہ نگاروںمیں بڑا نام ہے کو ایک کتاب پہنچانی ہے ۔ رابعہ الربا سے ملاقات نہیں تھی مگر ان کے بارے میں بہت سن رکھا تھا ۔ تین دن میںـ’’میا ـــ‘‘ کے نام سے حامد سراج صاحب کی کتاب موصول ہوئی میں نے الربا کو فون کیا اور ہماری ملاقات قائداعظم لائبریری میں ہونی تہہ پائی۔الربا کی دھیمے انداز کی گفتگو نے چائے کا مزہ دوبالا ہی نہیں بلکہ دو آتشہ کر دیا ۔دھان پان سی لڑکی کا الوند جیسا حوصلہ اور خیالات دیکھ کے ایک شعر یاد آگیا ۔
حوادث توڑ دیتے ہیں گرچہ گھونسلے لیکن
پرندوں کی مگر شاخوں سے خوشبو تو نہیں جاتی۔
ماہ اکتوبر میں پیدا ہونے والی scorpion لڑکی دنیا ئے ادب کو اپنے عزمِ نَوسے فتح کرنے نکلی تھی۔ پانچ بھائیوں کی اکلوتی بہن مگر لاڈپیار اور نازنخرے سے بہت دور ۔
اسکی باتوں سے لگتا تھا جیسے کاغذ کی کشتی میں اس نے دریائوں کو عبور کیا ہے۔تنگی وقت کے باعث ملاقات مختصر رہی مگر الرَبّاء سے مل کہ ایسا لگا جیسے ہم اجنبی تھے ہی نہیں ۔ پھر دوبارہ
ملنے کی اُمید کے ساتھ ہم دونو ں نے اُڈاری بھر لی ۔
بہت عرصے سے اردو افسانے کے عروج و زوال کی چہ میگوئیا ں ہو رہی تھیں سوچا کہ اس کے متعلق کس سے بات کی جائے کہ اچانک الرَبّاء کا نام ذہن میں آیا اور میرے استفسار پہ انہوں نے ملاقات کرنے کا وعدہ کیا اور کچھ دنوں کے بعد ہم روزنامہ پاکستان ایڈیٹر رانا ایثار صاحب کے آفس میں موجود تھے۔ کالم نگار ناہید نیازی بھی رابعہ الرَبّاء سے ملنے کے اشتیاق میں وہاں پہنچ گئیں ۔اب الرَبّاء بہت اعتماد کے ساتھ تین صحافیوں اور کالم نگاروں کے درمیان بیٹھی تھیں ۔ہم سب نے اپنی اپنی راگنی الاپنی شروع کی تو اچانک اس گفتگو کو انٹرویو میں ڈھالنے کا فیصلہ ہوا۔ انٹرویو کی صورت میں رقم کر نے کی ذمہ رادی مجھ کو دی گئی تو اچھا اس لئے لگا کہ دوستی کے اس لمبے سفر میں ہم نے ایک دوسرے سے جوکچھ
سیکھا ، وہ غار یار کے راز اور زندگی کے بھید لفظوں میں قید کرنا ان کو قارئین تک لاناہم جیسے ادب نوازاور قلم شناس لوگوں کا پسندیدہ شیوہ ہے۔
الرَبّاء سے ہم سب نے باری باری سوال کیے آئیے دیکھتے ہیں الرَبّاء کی سے ہماری گفتگو میں کیا کیا رنگ بکھرے ۔
رابعہ نے گورنمنٹ کالج لاہو ر سے ۲۰۰۷ ایم اردو ادبیات کیا۔ یونیورسٹی کے دور میں ’راوی ، کی کو ایڈیٹر رہیں،’’ تخلیق مکرر ، ، کی ایڈیٹر رہیں۔ سوندھی ٹرانسلیشن سوسائٹی کی
صدر رہیں ۔ گویا سفر ادب کی تربیت گاہ کی گود سے خوب سیکھنے کا موقع ملا ۔ ’’رات کی رانی،، ان کا پہلا افسانوی مجمو عہ ہے۔ اس کے بعد ان کی کتاب’’ احمد ندیم قاسمی کے افسانو ں میں نسائیت،، منظر عام پہ آئی ۔ اب سْوپر بْک’’اردوافسانہ عہد حاضر میں،، آپ کے ہاتھو ں میں ہے۔
’’ اردو افسانہ عہد حاضر میں،، رابعہ الرَ بّا ء کی دو حصو ں پہ مشتمل مر تب کردہ وہ کتاب ہے جو ا س کی پہچان بن گئی۔ اس کی اپنی تخلیق بھی اس کے سائے میں چھپ گئی ہے۔’’اردو افسانہ عہد حاضر،، اردو افسانے کی تاریخ میںمورخین کیلیے حوالے کے طو ر پہ ہمیشہ زند ہ رہنے والی کتاب ہے ۔
سوال: اردو افسانہ عہد حاضر میں ، اس سفر کا آ غاز کب اور کیسے ہوا ؟
الرباء : یہ زندگی کے ایک عشرے پہ محیط بہت پرانی کہا نی ہے ۔ہر مو سم سے بندھاہوا گلُ گلزار اور پُرخارسا سفر ہے ۔ تخلیقی زندگی کا آغاز مختلف ادبی رسائل و جرائد
میں افسانے لکھنے سے شروع ہوا،قلم میں ندی کی سی روانی اور چاند سے سفر کی مانند لکھنے کا سفر جاری تھا کہ اچانک ایک رو ز مجھے فون آیا کہ کسی نے میرا نا م اس اہم کا م کے لئے ایک ادارے کے انچارج کو دیا ہے۔ کام کیا تھا خواب تھا میں نے اَن دیکھے خواب کی تعمیر شروع کر دی ۔ ۲۰۰۹ میں اس کام کا باقاعدہ آغاز کیا ۔ اور یو کے سے کیا ۔یہ وہ دور تھا جب فیس بک اور وٹس ایپ کی دنیا کا آغاز اتنی شَدُمَدکے ساتھ نہیں ہو اتھا ۔ لہذا دشواریاں زیادہ تھیں ۔ لیکن ایساخواب جو اندھی آنکھیں دیکھ رہی ہوں تو ایسے خواب سے محبت ہو جاتی ہے۔اور خواب اورمحبت انسان کو کبھی تھکنے نہیں دیتے ۔ اب مجھے اس سفرکا زادِ راہ بھی اکٹھاکرناتھاجو حقیقت میں ایک بہت کٹھن مرحلہ تھا۔مگر کرنا تو تھا۔
کیونکہ خوابو ں کا رستہ کو ئی مشکل روک نہیں سکتی ۔ سو خواب خود دِ یا ہتھیلی پہ رکھے ، ہوائوں میں چلتا رہا اور کئی مو سم بدل گئے ، کئی برس بیت گئے۔
رابعہ : یہ ایک طویل مدت ہوتی ہے ۔ یکسانیت سے انسان اکتا جاتا ہے ، اتنی مستقل مزاجی خود ایک سوال ہے؟
الربّاء : مستقل مزاجی میری ذات کا حصہ ہے۔ یو ں بھی جیسا کہ یہ کا م نہیں خواب بن گیا تھا اور میں ایک خواب میں زندہ تھی۔ جس کی تعبیر ان سالو ں میں کئی بار ٹوٹنے کا اندیشہ ہواکیو نکہ حالات کے مد وجزر میں خواب کی کشتی کو کئی بار طوفانی لہروں کی زد میں آتے دیکھا و محسوس کیا تھا۔ کبھی تو لگتا کہ اب ساری محنت پرانے کاغذوں کی قبر میں دفن ہوجائے گی۔ مگر مستقل مزاجی نے ان کا غذات پہ گرد بھی نہیں پڑنے دی۔ شاید اس لئے کہ میں اگر کو ئی کام کرتی ہو ں توجنو ن سے کرتی ہو ں ۔ ورنہ نہیں کر تی۔ روز کتاب کے ہی نہیں زندگی کے بھی نئے باب کھل رہے تھے ۔ افسانہ نگار ایک افسانہ نہیں بلکہ دو تین تو بھیجتا تھا، اور کئی لوگ توپوری کتاب بھیجتے۔ اس میں سے انتخاب کرنا ، اور پڑھنا ، اس کے الفاظ کی تعداد ،اور دوسرے تکنیکی حوالو ں سے انتخان کرنا ،بہت محنت کا کام تھا۔ مگر وقت گزرنے کا اندازہ ہی نہیں ہو ا۔ اندیشے ضرور تھے اور ان گزرتے سالو ں میں ہوائوں کے بدلتے رخ سمجھ میں آنے لگے تھے۔
سوال : اچھا یہ بتائیے ادیب دوستو ں کا ساتھ کیسے شامل حال رہا ؟
الربّاء : سب سے پہلے چونکہ یورپ سے کا م کا آغاز کیا تھا ۔ لہذا وہا ں سے
مرزا امجد مرزا نے بہت سے افسانہ نگارو ں کے ای میل اور فون نمبرز دئیے۔ خود وہ اس وقت ’ یورپ کے ادبی مشاہیر، مرتب کر چکے تھے۔ اس کے بعد پاکستان میں اور پھر مجھے ایسا لگا جیسے میںپوری دنیا کے سفرپہ نکل پڑی ہوں۔آج آٹھ، نو سال گزر گئے پتہ ہی نہیں چلا ۔ سب سے پہلے تو مرزا امجد صاحب نے بہت تعاون کیا ۔ پھر قافلہ بنتا چلا گیا۔ اور ایک ادبی محبتو ں کی دنیا بستی چلی گئی۔ اوج کمال، حمید شاید صاحب ، مشرف عالم ذوقی ، مشتاق احمد نوری کو تو میں نے جب بھی کسی فون نمبر یا ای میل آئی ڈی لینے کے لئے فون کیا یا میسج چھوڑا ، مجھے اگلے ہی لمحے جواب آ جاتا ۔ حالا نکہ یہ سب مجھ سے کہیں زیا دہ مصروف ہیں۔ فرخ ندیم ، زیب اذکا ر حسین ، نورین علی حق ، ظہیر بدر، عاصم بٹ ، اشرف سلیم ، شہزاد نئیر، سیمیں کرن ، ثمینہ سید ، فیصل احمد ، آدم شیر ، وحید قمر، اسرار گاندھی، گل شیر بٹ ، اور حفیظ خان اور بہت سے نا م ممکن ہے مجھے اس وقت یاد بھی نا ہو ں۔ کسی نے کسی کا افسانہ بھیجا تو کسی نے کسی کا رابطہ نمبر، کو ئی کسی کا تعارف بھیج رہا ہے تو کو ئی کسی کی تصویر ، تو کو ئی کسی کا افسانہ۔
سوال: پو ری دنیا کا سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا تک کا سفر کر نا کیسا لگا ؟
الربّاء : حقیقت میں یہ سیپ میں سمندر کا سفر تھا ۔ جو بہت حسین تھا ۔ اور اب سمجھ میں آ یا کہ اگر سیپ میں نا ہو تی تو سفر کا مزا نہیں آنا تھا ۔ من کے در نہیں کھلنے تھے۔ کیو نکہ اس کا م کے حوالے سے لگ بھگ میری چار سو لو گو ں سے بات ہو ئی ہوگی ، اور تین سوپچاس سے زیادہ ای میلز اور ڈاک وغیرہ مو صول ہوئی ۔ سب سے اہم بات تو یہ سیکھی کہ انسان تو بہت کو شش کر تا ہے ، مگر کس کی کیا منزل و مقام ہے ، یہ طاقت انسان کے اپنے پا س نہیں ہے ، دوسرے اچھا ادیب ہونا ،اوراچھے انسان ہو نےمیں بہت فرق ہے، ضروری نہیں ایک بڑا ادیب ، بڑا انسا ن بھی ہو ، بعض ادیب جن کے ادب میںہم بیٹھ کر کیڑے نکا لتے ہیں ، اللہ نے انہیں ہم سے زیادہ مقام و مرتبہ ان کی اعلی انسانیت پہ دیا ہو تا ہے ۔ تیسرے یہ کہ جس ماحول میں آپکی پرورش ہو ئی ہو تی ہے۔ وہ آپ کے کردا ر کا ، آپ کی زبان کا آئینہ ہو تا ہے۔ میںنے یہ بھی پڑھا تھا کہ انسان کی ساخت اس کے اجداد کا آئینہ ہو تی ہے ۔ اس کام کے دوران یہ سائنس بھی خود بخود ، پرت در پرت کھلتی چلی گئی ۔ حقیقت میںیہ ایک الیکٹرانک سفر تھا ۔ مگر زندگی کے رنگو ں سے بھرپور تھا۔ آرٹ ورک تھا ، مگر سائنس جیسا تھا۔
سوال: کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس super book)) کی اردو ادب کو ضرورت تھی؟
الربّاء : جس نے خواب کو سینچا ہو ، وہ اس بارے میں اس طرح نہیں سوچتا۔ البتہ فطرت کے قانو ن کی بات کرتے ہیں تو یہ ہے کہ کوئی نئی بیما ری جنم لینے سے قبل اس علاقے کی زمین میں علاج کے لئے جڑی بوٹیاں پیدا کر دی جاتی ہے۔ اس نقطہ نظر سے کہہ سکتی ہو ںیقینا ضرورت تھی۔ اور اس کی دوسری مثال اِس سپر بک کے ساتھ ہی ممتاز شیخ کی بھی سپر بک منظر عام پہ آئی ، سہہ ما ہی لوح کا ایک سو پندرہ سالہ افسانو ی نمبر۔تیسری سپر بک سلیم صدیقی کی ’عالمی ادب کے شاہکار افسانے، بھی اسی دوران شائع ہوئی۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ضرورت تھی۔ اور اگر افسانے کی تنقیدی کتابوں پہ بات کریں تو وہا ں بھی ڈ اکٹرانوار احمد کی سْپر بک ’’ اردو افسانہ قصہ ایک صدی کا،، بھی اہم ہے ۔ یو ں دیکھیں تو سمجھا جا سکتا ہے کہ اردوادب کو اس کتاب کی ضرورت تھی۔
سوال : آپ کے پیش نظروہ کیا تھا، جس نے آپ کو مسلسل کا م میں لگائے رکھا؟
الربّاء :اک خواہش تھی کہ یہ انسائکلوپیڈیا ہے تو اس میں میرے ملک کے ہر حصے کے ساتھ ساتھ دنیا کے ہر ملک ،ہرطبقے، ہر مذہب کی نمائندگی ہو ، ملک کے ان علاقوں سے بھی افسانہ نگار شامل ہو ں ، جہاں رسائل کی دسترس نہیں۔میں رابطے کا ایک ا یسا لا متناہی سلسلہ شروع کرنا چاہتی تھی جو محبت ، امن ، سکو ن کی اپنی مثال آپ ہو۔ الحمدللہ وہ شروع ہو گیا۔کسی حد تک میری خواہش کی تکمیل بھی ہو ئی ، مگر ابھی تشنگی باقی ہے۔ خواہش ہے کہ ملک کے دور دراز گلی گلی کو چہ کو چہ گھوم کر اورکام اکھٹا کر سکو ں۔
سوال:اس کا م کے دوران جو مشکلا ت آئیں ، ایک لمحہ تھا کی سوشل میڈیا پہ کچھ منفی خبریں گردش بھی کر گئیں، ؟ ان مسائل کو کیسے ہینڈل کیا؟اور ان کی حقیقت کیا تھی؟
الربّاء : حقیقت کیا تھی ؟ سب کو علم ہو چکا ہے میں اس کو زیر بحث لانا نہیں چاہتی ۔اس سب کو فیس کرنا البتہ زندگی کا سب سے مشکل ترین وقت تھا۔ شروع میں تو مجھے علم ہی نہیں ہوا کہ یہ پْتلی تما شا کہا ں سے ہو رہا ہے، کس کی ڈور کس کے ہا تھ میں ہے؟ کیو نکہ رمضان کا مہینہ اپنے جوبن پہ تھا ۔ اور رمضا ن کے مہینے میں میری کوشش ہو تی ہے کہ اپنا ذاتی کا م نا کروں ۔ مگر اچانک دو ہی دن میں میرے پا س خصوصاََ پاکستان اور انڈیا سے فون اور وٹس ایپ میسج کی لائین لگ گئی ۔ اور مجھے خود بھی یہ علم ہوا کہ مجھ سے میرا ہی کا م گم ہو گیا ہے۔اضطراب کا عالم تھا ۔ مصروفیات نے الگ گھیرا ہوا تھا۔ ہر روز یہی پتا چلتا کہ جناب مجھ سے میرا کام گم ہو گیا ہے۔ میں نے فون کرنے، کروانے والوں سے پوچھا تو مجھے ان معزیزین زمانہ کی طرف سے کو ئی جواب مو صول نہیں ہو رہا تھا۔
میرے نام کو استعمال کرتے ہوئے(کہ اب یہ کام ہم کر رہے ہیں ، رابعہ سے تو گم ہو گیا ہے ۔ ) افسانہ نگاروں سے دوبارہ افسانے منگوائے جا رہے تھے۔کچھ دوستوں نے تو مجھے ہی کہا کہ رابعہ ہمارا افسانہ اس ای میل پہ بھیج دو۔ اضطراب پریشانی میں سجدہ بھی کرتی تو سب بھول جاتی ۔میری آٹھ ، نو سال کی محنت تھی۔ دن رات محبوب کے ناز نخروں کی طرح اس کام کے ناز اٹھائے تھے۔کوئی رستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ بے بسی و بے کسی کا وہی عالم تھا جو عاشق کی جدائی پہ ہوا کرتا ہے اور وہ عشق ہی کیا جو آزمائش نہیں لیکچھ سمجھ نا آیا تو، صدقہ دیا ، اللہ سے مدد کے نفل پڑھے اور اس کو کہا ’’ آج پھرتیری زمین پہ تین سو تیرہ سپا ہی ، ایک طرف اور باقی فوجیں ایک طرف ہیں ،۔ آج پھر انہیں تیری غیبی مدد کی ضرورت ہے ۔ اور پھر جو اللہ کی شان دیکھی ، سمندروں میں رستے بنتے دیکھے۔ سوشل میڈیا پہ جا کر اللہ پہ بھروسہ کرتے ہوئے اعلان کروا دیا ۔ کہ میرا کام میرے پا س آپ سب کی امانت کے طور پہ محفوظ ہے ۔ جلد آپ کے ہاتھو ں میں ہو گا۔ پھر جو ضروری کاروائی ہوتی ہے وہ کی گئی ۔ اور جن جن پبلیشرز نے چھاپنے کی حامی بھری تھی سب سے رابطہ کیا۔ اب اصل بات یہ تھی کہ کام وقت پہ آئے۔ اتنا بڑا کام وقت پہ لانا بھی مشکل تھا۔ عید کی بھی آمد آمد تھی۔ تب حفیظ خاںصاحب ’’ ملتان انسٹیٹوٹ آف پالیسی اینڈریسرچ ،، کا انتخاب کیا ۔ جنہو ں نے دو سال قبل اپنے ادارے سے یہ کا م شائع کرنے کی خواہش کا اظہا ر کیا تھا۔ان سے میں نے یہی کہا کہ بس مجھے کام وقت پہ چاہئے ۔ اور انہو ں نے بھی وعدہ کیا کہ اللہ میری مدد فرمائے ۔کتاب انشاء اللہ وقت پہ آئے گی۔عید سے قبل مجھے اب دوبارہ فائلنگ کرنا تھی، نئی ترتیب دینا تھی ۔ خیر آخری عشرہ اسی کام شبُ روز کا دانہ دانہ شمار کرکے گزارا۔ عید سے قبل میں نے مسودہ اور اس سے متعلقہ مواد ’ملتان نسٹیٹیوٹ آف پالیسی اینڈ ریسرچ، کو ای میل کر دیا تھا ۔وہا ں بھی ڈیزائنینگ کا کام شروع ہو گیا۔ میں نے خود کو اپنے کام سمیت اللہ کے حوالے کر دیا تھا ۔ ہر طرح کی خبر مجھ تک پہنچ رہی تھی ۔ یہ بھی امید ٹوٹ گئی تھی کہ میرا کام میرے ہی نام سے شائع ہو گا ۔ لوگو ں کے فون آ رہے تھے۔ کچھ اظہار ہمدردی اور کچھ مذاق اْڑا رہے تھے ۔ حق وباطل کی جنگ کیاہو تی ہے ؟اب سمجھ آرہا تھا۔سب کو ایک ہی جملہ کہا ’ اب اللہ کو جو منظور۔لیکن اس کے بعد جو میں نے اللہ کی شان دیکھی ہے ۔ سب کچھ کیسے ہوا۔ کیسے اللہ کی مدد آئی یہ سب کسی کرشمے سے کم نہیں تھا ۔ میں نے کہا ں کہاں اللہ کی شان دیکھی، نہیں بتا سکتی ۔ اور پھر ایک رات آمنہ مفتی مجھے ایک فائل ٹیگ کرتی ہیں ۔ میں نے حیرانی میں آمنہ کو فون کیا ؟ ’’آمنہ یہ کیا ہے؟،، تو کہتی ہیں’’ تمہاری کتاب رابعہ الرَبّاء۔،، ایک لمحے کو یقین ہی نا آیا۔ آمنہ نے سب سے پہلے یہ بات سوشل میڈیا کے حوالے کر دی کے کتاب چھپ گئی ہے۔ شاید میری حالت کا اندازہ میری سہلیوں کو تھا ۔ اور میںنے محسوس کیا ،میری سہلیاں مجھ سے زیادہ خوش تھیں۔ یہ میری خوش نصیبی ہےمگر اس میں میرا کیا کمال تھا کچھ بھی نہیں ۔ کتنے ہی مسودے منظر عام پہ آنے سے قبل دفن ہو جاتے ہیں ۔ تاریخ میں کیا کیا کچھ رقم نہیں۔ یہ اللہ کی شان ہے ۔ جس کے بیان کے لئے الفاظ نہیں ہوا کرتے۔
سوال: کتاب آنے کے بعد کیا محسوس ہوا؟
الربّاء : مطمئن تھی کہ میں نے امانت کے لفظ سے انسائسکلوپیڈیا شروع کیا تھا ۔ اور امانت میں خیانت نہیں ہو ئی۔ میرا خواب شرمندہ تعبیر ہو گیا تھا ۔ یقین نہیں آ رہا تھا۔ مڑ کر پیچھے دیکھتی ہوں تو لگتا کہ جیسے لوگوں کے چہروں پہ سجے پردے اْٹھ رہے تھے۔ وہی لوگ جن کے رویے پہلے کچھ اور تھے ، بعد میں کچھ اور تھے۔ رویو ں کی ایک نئی دنیا میرے سامنے کھل گئی تھی ۔سُپر بْک آنے کے بعد ، سُپر انسانو ں سے ملنے لگی ، مبارک کے فون دنیا بھر سے آرہے تھے اور ایک ہفتہ سے تو زائد لو گو ں کے فون سنتی رہی۔ کیو نکہ اب سب کو یقین ہو چکا تھا کہ سوپر بْک نہیں آنے والی ، مجھ سے زیادہ دوسرے خوش تھے۔ میرے لئے اس سے بڑا کوئی اطمینان نہیں تھا۔
سوال:کیا تیسرے حصے کی ضرورت محسوس کرتی ہیں؟
الربّاء :جی ، ابھی اس کتاب میں صرف دوسو سترہ افسانہ نگار شامل کر سکی ہوں ۔ ابھی اس میں بہت سے نا م مو جود نہیں ۔ جن کو ہو نا چاہئے تھا ۔ کیونکہ ابھی مجھے سنجیدہ نہیں لیا جا رہا تھا ، نئے آنے والے کو یہ سب فیس کر نا پڑتاہے۔ بہت سے ای میل بعد میں مو صول ہو ئے ، بہت سوں کو نکالنا پڑا کہ جگہ اجازت نہیں دے رہی تھی ۔ کچھ اس لئے شامل نا ہو سکے کہ ’’ بی بی آپ گھوڑے گدھے اکٹھے کر رہی ہیں۔،، تو میرا مجھ سے ہی سوال تھا کیا کائنات میں گھوڑے گدھے اکھٹے نہیں؟ ۔بہت سا کام ابھی میرے پا س محفوظ بھی ہے ۔ زندگی نے اگر کبھی مہلت دی انشاء اللہ کوشش ہو گی کہ تیسرے حصے پہ کام کروں ۔
سوال : سرکاری ادبی ادارو ں کا کیا رول ہے ؟ ادب میں؟
الربّاء : وہی جو سرکار کاملک میں ہے۔ اس سے زیارہ کچھ نہیں کہو ںگی ۔
سوال: بچپن میں کیا مشاغل اور شوق تھے ؟
الربّاء :بچپن میں ۔۔۔۔اف ۔۔۔ مشکل سوا ل ، بہن کو ئی نہیں تھی لہذا بھا ئیو ں کے ساتھ ٹینس بھی کھیلا ، کرکٹ ، فٹ با ل ، ہا کی بھی کھیلی۔ ابو نے ورزش بھی بہت کروائی یوگا بھی کیا مگر اْس وقت بھی رنگ بہت متاثر کرتے تھے ۔ واٹر پینٹنگ کرتی تھی اور میٹرک تک جب بھی کو ئی پینٹنگ کا مقا بلہ ہوا ہمیشہ جیتا کرتی۔ اس دور میں آرٹسٹ بننا چاہتی تھی۔ این سی اے جا نا چاہتی تھی ، مگر اللہ کے فیصلے کچھ الگ ہو تے ہیں۔ البتہ پڑھنے کی عادت پڑ گئی تھی ، ابو کی لائیبریری سے کتابیں نکا ل کے سکول بیگ میں چھپا لیتی تھی پڑھ کے واپس رکھ دیتی تھی ۔ سب سے پہلی کتاب خلیل جبران کی پڑھی ، سمجھ کچھ نا آیا مگر لطف آگیا۔ پھر یوسف زلیخاں پڑھی ۔ بس مجھ پہ اس کا جیسے اثر ہو گیا۔
سوال: تعلیم کے بعد کی زندگی کیا تھی؟
الربّاء: زندگی واقعا ت در واقعات کا نا م ہے ۔ بس یہی کہو ں گی کہ حالات خو د آپ کو زندگی کی ڈگرپہ سوار کر دیتے ہیں ۔ ایسا ہی ہو ا۔ جاب کی نہیں ۔ تنہا ئی کا تحفہ اللہ نے قلم کی صورت دیا خود بخو د لکھا جا نے لگا ۔ البتہ ابھی یونیورسٹی میں ہی تھی تو منصورہ احمد مجھے کہا کر تی ہیں ’’ گڑ یا میں تم میں کہا نی کا ر دیکھ رہی ہو ں،، اور میں کہا کر تی تھی ـ’’ اف کہا آپا ںمیں نہیں لکھ سکتی اور با قی وہی گر م سر د جو اولاد آدم کا حصہ ہے۔ جس کے بنا زند گی، زند گی نہیں بنتی۔
سوال:کیا لکھنے کابچپن سے ہی شوق تھا؟
الربّاء : بچپن سے لکھنے کا تو نہیں ، پڑھنے کا شوق ضر ور رہا۔ البتہ ڈائری کبھی کبھی لکھا کر تی تھی۔جب سب سے سنتی ہو ں کہ وہ بچپن سے لکھ ر ہے ہیں تو مجھے محسو س ہو تا ہے میں نے بڑ ھاپے میں لکھنا شروع کیا۔
سوال ؛ آپ کو گھر میں کیا کہتے ہیںہے؟
الربّاء : گڑیا ( واقعی رابعہ الرباء ایک گُڑیا کی طرح دکھتی ہیں)
سوال: موسیقی کا شوق ہے؟
الربّاء : جی وائلن اور بانسری پہ مسکراتی دھنیں ، کو ئل کے گیت۔۔۔ فاختہ کے نغمے، بارش کی بو ندیں، بادل کی گرج ، تیز ہو ائوں کا شور بچوںکی قہقہار،یو ں مو سیقی پسند ہے۔
سوال: کھانے میں کیا پسند ہے؟
الربّا ء : خام خوراک۔۔۔یعنی پھل، مربے ، جو سز ، سالاد اور دیسی میٹھی چیزیں جیسے پیٹھے کا حلوہ، گاجر کا حلوہ۔۔
سوال: لباس کیسا پسند ہے؟
الربّاء: ہر لبا س، جو ہلکا پھلکا light weight اور پر سکو ن ہو ۔ البتہ سٹائلش ہو ۔ (سٹائل اور فیشن میں فرق ہے) ، رنگین ہو۔
سوال: ادبی زندگی کا نا بھولنے والا واقعہ کیا ہے؟
الربّاء : بہت سے ہیں لیکن ایک معروف اخبار کے صحافی نے اپنے ادبی صفحے کے لئے انٹرویو کیا ۔ میں نے ان کے سابقہ انٹرویو دیکھے، تو ان سے کہا کہ پلیز میری تصویریں
یو ں اخبار میں نا لگائیے گا ۔ جیسے آپ نے باقی انٹرویوز میں پیش کی ہیں ، میں لکھاری ہو ں ، وہی لگوں تو اچھا ہے۔ ان کو میری بات ناگوار محسوس ہوئی ، مگر اب وہ انٹرویو کر چکے تھے۔ انہو ں نے صفحاتی انٹرویو کو دس روپے کے نوٹ جتنا شائع کیا ۔ اور الفاظ کا ایسا رد و بدل ہوا کہ جملے کی روح نکال دی ۔پڑھنے والو ں کے لئے میرا بچپن حیران کن سوال بن گیا۔ یہ رویہ میری مسکراہٹ کا باعث بنا۔
سوال: زندگی کیا ہے؟
الربّاء : زندگی سے یہی سیکھا ہے ، یہ مشقت اور مشکل کا ہی نا م ہے ۔ کئی لو گو ں کا تو بچپن بھی کٹھن ہو تا ہے ۔ جیسے وہ بچپن سے گزرے ہی نہیں ۔ وقت اور حالات نے یہی سمجھا یا کہ ہم خواہش تو کر سکتے ہیں ، مگر حاصل اپنی کو شش سے بھی نہیں کرسکتے۔ بس جو ں جو ںسمجھ آنے لگا، زندگی کو خو د پہ آسان کر نے کی کو شش کی ، مشکل وقت ، اپنے وقت پہ ہی جاتا ہے ۔ نبیﷺ اگر کہہ رہے ہیں کہ جھک جا نے میں اگر عزت کم ہو تو روز قیامت مجھے سے لے لینا ،یہ پڑھا تو یہ سیکھ لیا، اگر بندہ ہار بھی جائے تو خاک ، خاک سے مل جاتی ہے ، خو د کو حالات کے حوالے ، وقت کے حوالے کر دیاکہ اگر اللہ مو سی کو دریا سے اس کی ماں کی گو د تک لے جا سکتا ہے، یوسف کو کنویں سے نکا ل کر مصر کے قید خانے اور وہاں سے پھر محل میں لے جا سکتا ہے ۔ تو ہم کو ن ہیںجو تدبیر کر یں اور وہ کا ر گر بھی ہو جائے۔مگر اپنی سی کوشش پہ ضرور یقین ہے ۔ یہ سب اس کے بعد کی بات ہے زندگی میں لمحہ بھر کو کو ئی بھی ٹھنڈی ہوا خوشگوا ر کر دیتی ہے ۔ یہ لمحوں سے ُجڑی کڑی ہے ۔سمجھ میں نہیں آسکتی ، ہر شخص پہ یہ الگ کْلیے سے کھلتی ہے۔
سوال: کوئی ایسی خواہش کہ جس پہ دم نکلے؟
الربّاء : آزادی کے ساتھ آوارہ گردی۔فطرت کو فطرت کی طرح محسوس کر نا چاہتی ہو ں ۔اللہ کی بنائی دنیا کے حسن کو ، فطرت کی گود میں بیٹھ کر، دیکھنا ہی نہیں، محسوس کرنا چاہتی ہو ں ۔
سوال:کس سے آپ کو زندگی میں سب سے زیادہ متاثر ہوئیں؟ اور اس کا اثر آ پ پہ ہو ا؟
الربّاء : حضر ت یو سف علیہ السلام سے متاثر ہوئی ، حسن تھا ، خلوت تھی، بادشاہت تھی، علم تھا ، دولت تھی، ذہانت تھی، دنیا کی سب طاقتیں ان کے قدمو ں میں ڈھیر پڑیں تھیں، مگر وہ سب کو پس پشت ڈال کر آگے بڑ ھ گئے ۔ آسان نہیںتھا۔ مگر آج بھی متا ثر ہو ں ، اسی اسیر ی کے باعث اپنی سب کتا بیں ان کے نا م کیں۔ کہہ لیجئے وہ میرا عشق ہیں۔دوسرا حضرت رابعہ بصری ، اور تیسرا میری دادی جان نفیسہ ناظم جس کو آپ چاہتے ہیں ، اِنہیں اپنانے بھی لگتے ہیں اور آپ کو پتا بھی نہیں چلتا ۔ یوں کسی نا کسی طرح اِ ن چاہتو ں کا اثر جانے انجانے مجھ پہ ہوا۔
سوال: مطلب آپ حسن پرست بھی ہیں؟
الربّاء : فطرت ہے ۔ جب خالق جمال پسند ہے تو مخلوق میں یہ صفت خامی تو نہیں ۔حُسن پرست تو نہیں حُسن پسند ہو ں
سوال: افسانہ کے حوالے سے کہا جا تا ہے کہ وہ مر رہا ہے؟
الربّاء : نہیں ایسا نہیں ہے ، کہا نی کی صورتیں بدلتی رہی ہیں ، حالات کے ساتھ بدلتی رہیں گی ، کہا نی کی یہ صورت مر نہیں رہی ، ایک نئی کروٹ لے رہی ہے ۔ نئے تجربے سے گزررہی ہے ، کسی بھی دَور کا ، کسی بھی تاریخ کا مشا ہدہ کرلیجئے ، ہر دَور میں تبدیلی جب بھی آئی ہے ، اس کو قبول نہیں کیا گیا ، مگر جب تبدیلی تاریخ بن گئی ہم اس کے follower بن گئے ۔ افسانے میں تکنیک ، اسلو ب ، کہا نی ، الفاظ ، املا ء ، تراکیب کے تجربات ہو رہے ہیں ۔ نئے حالات میں پیدا ہو نے والے ، نئی ایجا دات سے پیدا ہو نے والے نئے مسائل اور وسائل کی بات ہو رہی ہے، سائنس فکشن میں ترقی ہو رہی ہے، ظاہری دنیا سے بالگ کسی دنیا کی سیر ہو نے لگی ہے ۔اب یہ سب اتنی آ سانی اور جلدی سے ہضم کر نا دشوار ہے ۔ نا ممکن نہیں ۔ وقت لگے گا ۔
سوال: نسائی افسانہ کے حوالے سے کیارائے ہے؟
الربّاء : اب کی افسانہ نگارکے اندر کا خوف علامت سے با ہر نکل چکا ہے۔ وہ کہا نیو ں میں اپنے نئے مسائل لے کر آ رہی ہے ۔ ایک مصنو عی عورت ، ایک تخیلاتی عورت کے پیکر کو توڑ کر زندہ و جاوید عورت پینٹ کر رہی ہے۔ وہ فطری تخلیق کا ر ہے ، اس لئے اس کے ہا ں تخلیق بہت مضبو ط و قوی نظر آتی ہے۔ یو ں بھی اب دنیا بھر میں Gynocriticism کا فلسفہ جگہ بنا رہا ہے اس کے اثرات بھی ہما رے نسائی ادب میں شعوری اور لا شعوری طور پہ ہو رہے ہیں۔
سوال: اور مردانہ افسانہ ؟
الربّاء : مردانہ افسانے میں مرد کے اپنے کردار کی کمی ہے ۔ وہ سب کچھ پینٹ کر دیتا ہے ، مگر اپنا بائیلا جیکل اور فطری کردار نہیں لکھ پایا۔
سوال: افسانے میں زبا ن کا یہ نیا تجر بہ ، کیا زبا ن کو نقصان نہیں پہنچا رہا ؟
الربّاء : میرے خیال میں نہیں، زبا ن کا دامن وسیع ہو رہا ہے۔
سوال : ادبی گروہ بندی سے ادب کو نقصان ہو رہا ہے؟
الربّاء : بالکل ، کیو ں نہیںبہت نقصا ن ہو رہا ہے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں ادب لکھا نہیں جا رہا ، یہ غلط ہے۔ معذرت کے ساتھ ، ملک کے ہر شعبہ کی طرح ادب او رادیب بھی سیاست کا شکار ہیں۔ مفادات کے میدان میں طاقت ، پیسے اور عہدے کی ٹرائی اینگل بہت مہذب طریقے سے کام کر رہی ہے۔ جس میں چند ہی اصلی مو تی جگہ بنا پاتے ہیں۔ اور جوہر ی کو ان کی پہچان ہو جاتی ہے۔
سوال: مستقبل کا کیا ارادہ ہے؟
الربّاء: اگلے لمحے کا بھی علم نہیں تو مستقبل کا کیا سوچ سکتی ہوں ۔ اتنی دور کا سفر نہیں کر تی ۔ وقت ہوا کے دوش پہ ہمیںاُڑائے لے جا رہا تھا اور پتہ ہی نہ چلا کہ اب تو پرندوں کے گھر لوٹنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ ہاتھ میں تھاما ہوا کافی کا کپ کب کا ختم ہو چکا تھا اور شام بھی بال کھولے دیواروں پہ اداسی بکھیرنے لگی تھی۔ ہمیں بھی جا نا تھا ۔ ہم سب بھی چل دئے۔ خوبصورت شام کے لیے رابعہ الرَبّاء کے بہت مشکور ہیں ۔اور ساری باتیں بھی آپ کے سپرد کر کے جا رہی ہوں۔ پھر کبھی کسی نئے رنگ میں ملنے کی امید کے ساتھ ( اللہ نگہبان )
بشکریہ روزنامہ’’پاکستان ،، لاہور ۲۸ جنوری ۲۰۰۸