سرسید نے اپنی زندگی کو تعلیم اور بین المذہبی مفاہمت و بھائی چارہ کے لئے وقف کرکے ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کا کام کیا: پروفیسر طارق منصور
اے ایم یو کے بانی سرسید احمد خاں ؒ کے 201ویں یوم پیدائش کے موقع پر سرسید یادگاری تقریب کا انعقاد
علی گڑھ، اکتوبر: (اسٹاف رپورٹر)علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے بانی سرسید احمد خاں ؒ کے 201ویں یوم پیدائش کے موقع پر یونیورسٹی کے ایتھلیٹکس گراؤنڈ پر منعقدہ سرسید یادگاری تقریب سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے ملک کے سابق چیف الیکشن کمشنر ڈاکٹر ایس وائی قریشی نے کہاکہ سرسید نے انگریزی اور سائنس کی تعلیم پر زور دیا جس نے ہمیں عالمی شہری بنایا ہے۔ انھوں نے کہا’سرسید کا پیغام کسی بھی پہلو سے اسلام کے خلاف نہیں تھا اور ان کے مداحوں میں مسلم اور غیرمسلم دونوں شامل تھے‘۔ ڈاکٹر قریشی نے کہا کہ وہ امریکہ، یوروپ، افریقہ اور مغربی ایشیا کے مختلف ملکوں میں گئے ہیں جہاں ہر جگہ انھیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق طلبہ ملے ، جو اے ایم یو کے ترانے ’’جو ابر یہاں سے اٹھے گا وہ سارے جہاں پر برسے گا‘‘ کی عملی تعبیر ہے۔ سرسید احمد خاں کی عظمت کو اجاگر کرتے ہوئے ڈاکٹر قریشی نے کہا کہ بلاشبہ سرسید نے قلیل مدت میں ایک ناممکن سا نظر آنے والا ہدف حاصل کرلیا تھا۔ انھوں نے کہاکہ سرسید اپنے وقت سے بہت آگے تھے ، انھوں نے صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ دیگر میدانوں میں بھی رہنمائی کی ، وہ بڑے سماجی مصلح تھے اور قول و عمل دونوں سے وہ سیکولر نظریات کے حامل تھے۔ ڈاکٹر قریشی نے کہاکہ سرسید کی تعلیمات اور ان کا پختہ عزم و حوصلہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے جس سے ہر کسی کو تحریک ملتی ہے۔ سابق الیکشن کمشنر نے ملک میں انتخابی اصلاحات ، خواتین و نوجوانوں کے ووٹنگ فیصد میں اضافہ وغیرہ کا تفصیل سے ذکر کیا۔ انھوں نے سرسید کے مشن پر عمل کرتے ہوئے تعلیمی معیار کو بلند رکھنے اور سول سروسیز میں نمائندگی بڑھانے پر بطور خاص زور دیا۔ وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے اپنی استقبالیہ تقریر میں کہا کہ سرسید نے اپنی زندگی کو تعلیم، تکثیریت، بین المذہبی مفاہمت اور سیکولرزم و بھائی چارہ کے لئے وقف کرکے ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کا کام کیا۔ سرسید نے ہر موضوع پر لکھا اور اپنا اصلاحی و تعلیمی مشن تاعمر جاری رکھا۔ پروفیسر منصور نے کہاکہ سرسید نے عام ہندوستانیوں میں بنیادی طور سے سائنسی فکر کو پروان چڑھانے پر زور دیا۔ وائس چانسلر نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہونے والی تعلیمی پیش رفت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ ٹائمس ہائر ایجوکیشن نے اے ایم یو کو پانچویں سب سے بہتر ہندوستانی یونیورسٹی قرار دیا ہے، اسی طرح نیشنل انسٹی ٹیوٹ رینکنگ فریم ورک (این آئی آر ایف) نے اے ایم یو کو دسویں سب سے ممتاز ہندوستانی یونیورسٹی قرار دیا۔ وائس چانسلر نے کہا کہ اے ایم یو ان پانچ مرکزی یونیورسٹیوں میں شامل ہے جنھیں حکومت ہند کی طرف سے درجہ وار خود مختاری عطا کی گئی ہے۔ پروفیسر طارق منصور نے بتایا کہ جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج کے شعبۂ امراض خواتین کو 28؍کروڑ روپئے کی گرانٹ حاصل ہوئی ہے، 150؍کروڑ روپئے کی لاگت سے نیا ٹراما سنٹر شروع کیا گیا ہے، کینسر کے علاج کے لئے پندرہ کروڑ روپئے کی لاگت سے لینئر ایکسیلیریٹر نصب کیا جائے گا، اسپتال کی گرانٹ 13؍کروڑ روپئے سے بڑھ کر 26؍کروڑ روپئے ہوئی ہے، 90؍نئے اسمارٹ کلاس روم قائم ہوئے ہیں اور ریسرچ اسکالروں کے لئے 30؍کروڑ کی لاگت سے ہاسٹل کی تعمیر کی جارہی ہے اور یونیورسٹی میں کئی نئے کورسیز شروع کئے گئے ہیں۔ وائس چانسلر نے اے ایم یو برادری سے جہد مسلسل اور معیاری تعلیم پر توجہ مرکوز رکھنے کی اپیل کی۔ اس موقع پر ڈاکٹر ایس وائی قریشی اور پروفیسر طارق منصور نے جرمنی کے پروفیسر کرشچئن ڈبلو ٹرال کو انٹرنیشنل سرسید ایکسیلنس ایوارڈ اور ریختہ فاؤنڈیشن کے بانی مسٹر سنجیو صراف کو نیشنل سرسید ایکسیلنس ایوارڈپیش کیا۔ پروفیسر ٹرال کا ایوارڈ ڈاکٹر وکٹر ایڈوِن نے حاصل کیا۔ یہ ایوارڈ دو لاکھ روپئے اور سپاس نامہ پر مشتمل تھا۔ سنجیو صراف کو پیش کردہ نیشنل سرسید ایکسیلنس ایوارڈ ایک لاکھ روپئے اور سپاس نامہ پر مشتمل تھا جسے سنجیو صراف نے خود حاصل کیا۔ اپنے تاثرات ظاہر کرتے ہوئے مسٹر سنجیو صراف نے کہا کہ وہ اردو زبان اور اردو تہذیب کے دلدادہ ہیں اور ریختہ کے ذریعہ وہ ایک تہذیب اور روایت کو لوگوں تک پہنچارہے ہیں۔ تقریب کے دوران سال کے ممتاز ریسرچر کے دو ایوارڈ دو الگ الگ زمروں میں پروفیسر ایم عرفان علی مونڈال (شعبۂ طبقات الارض) اور پروفیسر اکبر حسین (ڈین، فیکلٹی آف سوشل سائنس) کو اور نوجوان ریسرچر کے دو ایوارڈ دو الگ الگ زمروں میں ڈاکٹر یاسر حسن صدیق (شعبۂ علم الحیوانات) اور ڈاکٹر شیوانگنی ٹنڈن (مرکز برائے خواتین مطالعات) کو پیش کئے گئے۔ ممتاز ریسرچر کا ایوارڈ ایک لاکھ روپئے و توصیفی سند اور نوجوان ریسرچر کا ایوارڈ پچاس ہزار روپئے و توصیفی سند پر مشتمل تھا۔ ’’عصر حاضر میں پرامن بقائے باہم اور رواداری پر سرسید احمد خاں کے خیالات کی اہمیت‘‘ موضوع پر منعقدہ آل انڈیا مضمون نویسی مقابلہ کے فاتحین کو بھی اس موقع پر انعامات سے نوازا گیا۔ 25؍ہزار روپئے نقد پر مشتمل اوّل انعام نیشنل یونیورسٹی آف ایڈوانسڈ لیگل اسٹڈیز، کوچی، کیرالہ کی بی اے۔ایل ایل بی کی طالبہ جاگرتی سانگھی نے جیتاہے۔ 15؍ہزار روپئے نقد پر مشتمل دوئم انعام علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایم اے (اقتصادیات) کے طالب علم محمد عمیر خاں نے جب کہ سوئم انعام یونیورسٹی آف مدراس، چنئی کی ایم فِل (اپلائیڈ جیولوجی) کی طالبہ کرن فرانسس نے جیتا جو 10؍ہزار روپئے نقد پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ مقابلہ میں حصہ لینے والے مختلف ریاستوں کی یونیورسٹیوں اور کالجوں سے 14؍ ریاستوں کے ٹاپرس کے ناموں کا بھی اعلان کیا گیا۔ یہ انعام فی کس پانچ ہزار روپئے نقد پر مشتمل ہے۔ ریاستی ٹاپرس میں بہار سے انکیتا گوئل ، گجرات سے دھرووی مکیش بھائی نوادیا ، ہماچل پردیش سے اودے تلوار، ہریانہ سے احد علی، جموں و کشمیر سے عابد احمد شیخ ، کیرالہ سے محمد سہل، کرناٹک سے فاطمہ زہرا ، مہاراشٹر سے انوپریہ اگروال، دہلی سے اُتکرش اگروال، اڑیسہ سے پرتاپ جینا، پنجاب سے شویتا مگلانی ، تمل ناڈو سے تھِرووازمار بنس ، اترپردیش سے وجاہت مناف جیلانی (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی)، اور مغربی بنگال سے ماگا دونی شامل ہیں۔اس موقع پر سرسید احمد خاں کی حیات و خدمات پر پروفیسر سیمیں حسن (شعبۂ انگریزی )، پروفیسر عبدالرحیم قدوائی (ڈائرکٹر، یوجی سی۔ایچ آرڈی سی) ، بی اے ۔ایل ایل بی کے طالب علم وجاہت مناف جیلانی اور بی اے آنرز کی طالبہ عافیہ رضوی نے خصوصی تقریریں کیں۔ ڈین، طلبہ بہبود پروفیسر جمشید صدیقی نے شکریہ ادا کیا۔ پروفیسر ایف ایس شیرانی اور ڈاکٹر فائزہ عباسی نے مشترکہ طور سے نظامت کے فرائض انجام دئے۔ اس موقع پر پرو وائس چانسلر پروفیسر ایم ایچ بیگ، رجسٹرار مسٹر عبدالحمید (آئی پی ایس)، کنٹرولر امتحانات مسٹر مجیب اللہ زبیری، فائننس آفیسر پروفیسر ایس ایم جاوید اختر اور دیگر معززین موجود تھے۔ اس سے قبل یوم سرسید کی تقریبات کا آغاز یونیورسٹی جامع مسجد پر قرآن خوانی سے ہوا۔ وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے یونیورسٹی کے سینئر اساتذہ و اہلکاروں کے ہمراہ بانئ درسگاہ سرسید احمد خاں کی مزار پر چادر پوشی کرکے خراج عقیدت پیش کیا۔ اس کے بعد سرسید اکیڈمی میں وائس چانسلر نے سرسید احمد خاں کی حیات و خدمات پر مبنی کتابوں کی نمائش کا افتتاح کیا۔ یہ نمائش سرسید اکیڈمی اور مولانا آزاد لائبریری کے اشتراک سے منعقد کی گئی۔ وائس چانسلر نے سرسید اکیڈمی کی ویب سائٹ کا بھی افتتاح کیا۔ پروفیسر طارق منصور نے اس موقع پر کہاکہ سرسید اکیڈمی ، بانئ درسگاہ سرسید احمد خاں کے پیغام کو برادران وطن تک پہنچانے میں اہم رول نبھاسکتی ہے۔ انھوں نے کہاکہ تکثیریت ، بین المذہبی مفاہمت و بھائی چارہ کے سلسلہ میں سرسید پوری زندگی جن اصولوں پر کاربند رہے آج ان کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔وائس چانسلر نے چار کتابوں کا اجراء بھی کیا۔ ان کتابوں میں ’سرسید کا اصلاحی مشن‘ از پروفیسر توقیر عالم فلاحی، ’جہاتِ سرسید‘ از ڈاکٹر شمس بدایونی، ’سرسید احمد خاں: وضاحتی و موضوعاتی کتابیات‘ از ڈاکٹر عطا خورشید اور ’سرسید احمد خاں‘ از ڈاکٹر محمد عمر رضا شامل ہیں۔ سرسید اکیڈمی؍پبلیکیشن ڈویژن کے ڈائرکٹر پروفیسر سید علی محمد نقوی نے وائس چانسلر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ سرسید اکیڈمی کے آرکائیوز کی ڈجیٹائزیشن کا کام شروع کیا گیا ہے ، سرسید کی کتابوں اور مقالات و تحریروں کی تدوین و اشاعت کی جارہی ہے جو کئی جلدوں میں سامنے آئے گی۔ اس کے علاوہ سرسید اور علی گڑھ تحریک پر کلاسیکی و نادر کتابوں کی اشاعت کا منصوبہ ہے۔ ڈپٹی ڈائرکٹر ڈاکٹر محمد شاہد نے وائس چانسلر و دیگر حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر پرو وائس چانسلر پروفیسر ایم ایچ بیگ، یونیورسٹی کے سینئر حکام اور دیگر معززین موجود تھے۔ اس پروگرام کی نظامت ڈاکٹر سید حسین حیدر نے کی۔ ایتھلیٹکس گراؤنڈ پر منعقدہ سرسید یادگاری تقریب کے اختتام پر وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے 18؍اکتوبر کو یونیورسٹی میں عام تعطیل کا اعلان کیا۔