Home / خبریں / سیما غزل ۔ شخصیت اور شاعری

سیما غزل ۔ شخصیت اور شاعری


٭ڈاکٹر زیبا محمود

ایسو سی ایٹ پروفیسر،شعبہ اردو
گنپت سہائے پی جی کالج،سلطانپور یو پی۔
Email:dr.zebamahmood@gmail.com

تانیثی ادبی تنقید اور اس کے اصول کسی متن میں عورتوں کے ذاتی تجربات ، مشاہدات اورتاثرات کی تلاش پر زور دیتے ہیںخواہ وہ متن دنیا کے کسی بھی تہذیب و تمدن کی تاریخ کے کسی بھی دور سے تعلق رکھتے ہوں۔۔تانیثی نظرئے کے مطابق ادب ایک تہذیبی عمل ہے جو اپنے دور کی ذہنی روش کاایک اہم دستاویز ہوتا ہے۔اس لئے ہر وہ متن اور اس کا مطالعہ ضروری ہو جاتا ہے جس کی تخلیق کار کوئی عورت ہو۔اور یہ طے شدہ امر ہے کہ انسانی فکر کی تشکیل و تعمیر اور اس کی نشوونما اس کے گھر کے ماحول معاشرہ اور سماجی سیاسی حالات کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔
انسان جس ماحول میں پیدا ہوتا ہے یعنی اس کی پرورش و پرداخت معاشرے اور ماحول سے اخذ ریزی کو لازمی جز قرار دیا جا سکتا ہے۔دوسری اہم بات اس وراثت کی ہوتی ہے جو اسے اپنے خاندان اور والدین سے ملتی ہے۔لہذا کسی ادیب وفنکار کے فکری پس منظرکامطالعہ ان تمام باتوں کے تجزئے کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ظاہر سی بات ہے کہ یہ جملے اردو شعر و ادب کی مایہ ہستی سیما غزل پر بھی صادق آتے ہیں۔
سیما غزل کے فکر کی تعمیر میں وراثت ،ماحول، معاشرہ اور سماجی حالات کا اہم رول رہا ہے۔سیما غزل نے جس گھرانے میں آنکھیں کھولیں وہ بیدار ذہن اور روشن خیال گھرانہ تھا۔ان کی پیدائش اردو کے مشہور شاعر جمیل الدین عالی(چچا) کے گھر لاہور میںہوئی لیکن کراچی میں پروان چڑھیں،وہیں تعلیم حاصل کی۔والد شاعر اور ریڈیو پر اسکرپٹ رائٹر تھے۔سیما غزل نے ریڈیو سے ہی اپنا تخلیقی سفر شروع کیا اور’’ آؤ بچو کہانی سنو‘‘سے انھوں نے اپناریڈیو کا سفر شروع کیا۔پاکستان کے مشہور رسالہ ’’دوشیزہ‘‘کی ادارت بھی بارہ سال تک سنبھالی اور پھر ان کا رخ ٹی وی سیرئیل کی طرف ہو گیا۔کئی مشہور سیرئیل ان کے قلم سے نکلے جن میں’’مہندی،چاندنی راتیں،انا، ہم سے جدا نہ ہونا،وغیرہ نہایت اہم ہیں۔بحیثیت سیرئل رائٹر اب تک چار سو بھی زیادی ٹی وی سیرئیل وہ لکھ چکی ہیں۔جو ان کی تخلیقی صلاحیت کی روشن دلیل ہے۔سیرئیل کے علاوہ انھوں نے تقریباسات ناولز بھی لکھے جن میں’’چاند کے قیدی،کمند،زرد پتوں کا بھنور،کوری آنکھیں،کال بیل،اندھی رات کا بیٹا اور آدھا وجود‘‘ شامل ہیں۔کراچی میں ہی ایک مشہور ادبی تنظیم ’’سائبان‘‘کی چئیر پرسن ہیں۔
’’آدھا سورج آدھا چاند‘‘اور ’’سائے خود بناتی ہوں‘‘ کے عنوان سے ان کے دو شعری مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں جنھیں ذوق شناسان ادب نے اپنی آنکھوں کا سرمہ بنایا۔ان کے پر زور تخلیقی عمل کا نتیجہ ہے کہ جو کچھ انھوں نے صفحہ قرطاس پر بکھیر دیا ہے اس سے ان کی ذات میں چھپی خودداری اور انانیت کا اثاثی ثبوت فراہم ہوتا ہے۔۔۔ان کی شاعری کا اکثر حصہ محبت ،اس کی کارفرمائیوں کے نتیجہ میں پیدا ہونی والے جذبات اور کیفیات کا ترجمان ہے۔جسے پڑھ کر قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ اسی کے دل کی ترجمانی ہے۔
اس کی آہٹ بھی مرے پاس پڑی ہے اب تک
اس کا لہجہ مرے کمرے میں سجا ہے کہ جو تھا
اس کی سر گوشیاں تکئے پہ رکھی ہیں کہ جو تھیں
اس کا غصہ بھی تو ٹیبل پہ دھرا ہے کہ جو تھا
میں تری دسترس میں کیا رہتی
میںتو خود کو بھی کم نصیب رہی
ان شعروں کی فضا ایسی ہے جس کی تشریح و تفسیر یا تعبیر و توضیح میںکوئی پیچیدگی نہیں ہے نہ ہی لفظوں کا کوئی گورکھ دھندا ہے جو بآسانی سمجھ میں نہ آ سکے لیکن اس کے باوصف بھی سادہ لفظوں میں ایک ایسی تہہ داری ہے کہ جس میں قاری ڈوب جاتا ہے اور سارا منظر نامہ از خود ابھر کر سامنے آجاتا ہے۔فصاحت کی بھی یہی تعریف ہے ۔چنانچہ جب بھی کسی محفل میں فصاحت و نزاکت کی بحث ہوتی ہے وہاں غزل صاحبہ کا نام لبوں پر ضرور آ جاتا ہے جن کی شیریں بیانی قاری کے ذہن و دل کو مسحور کر دیتی ہے۔آپ کی شاعری آزادئی فکر ،بیباکیٔ بیان،اور صداقت ِگفتار کی علمبردار ہے۔اور یہی اوصاف درحقیقت شاعری کی اصل روح بھی ہیں۔
سیما غزل کا بڑاکمال یہ ہے کہ والہانہ محبت اور خلوص اور عاشقانہ رمز و کنائیت جو معاملہ بندی کے خاص عناصر ہیںکسی جگہ نظر انداز نہیں ہو نے دیتیں۔ان کی شاعری میں موجود دردمندی ،سوز و اضطراب فراوانی کے ساتھ رقم ہیں۔
دل میں کچھ اور تو نہیں ہے مگر
اک محبت کا روگ رکھا ہے
گنگناتی ہوئی فضا ہے مگر
گھر کے کونے میں سوگ رکھا ہے
جذبوں پر جب برف جمے تو جینا مشکل ہوتا ہے
دل کے آتشدان میں تھوڑی آگ جلانی پڑتی ہے
کبھی کبھی تو سچ مچ اس سے جھگڑا کرنا پڑتا ہے
اکثر ایسا ہو جاتا ہے بات نبھانی پڑتی ہے
یہ اشعار بھی سیما غزل کی تخلیقی جہت کی طرف اشارہ کرتے ہین کہ ان کی شاعری میں کون سے عناصر کس طرز کے ساتھ بیان ہوتے ہیں۔شاعری اصل میں سلیقہ اظہار کا نام ہے،۔کہ شاعر جس مضمون کو اختیار کرے اسی مضمون کے متقاضی لہجہ کو بھی اختیار کرے ورنہ مضمون یا خیال مناسب سلیقہ اظہار نہ ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے میں ضم نہیں ہو پاتے اور نتیجتاً شاعری میں آورد در آتا ہے اورقاری کو یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ شعر نے خود کو نہیں کہلوایا بلکہ شعر کوکہے جانے کی کوشش کی جارہی ہے۔سیما غزل کے یہاںتخیل کی باریکی اور احساس کی لطافت کے ساتھ ساتھ الفاظ کی ترتیب اور نشست برخاست کا ایک خاص سلیقہ نظر آتا ہے۔ اختصار وایجاز کے ساتھ اپنے پاکیزہ خیالات و جذبات کو تمامتر وسعتوں کے ساتھ بیان کرنے میںانھوں نے کامیابی حاصل کی ہے۔دراصل جن موضوعات کا احاطہ انھوں نے کیا انھیں اپنے فنی کمال سے جاوداں بنا دیا ہے۔
ایک تہذیب تھا بدن اس کا
اس پہ اک رکھ رکھاؤ آنکھیں تھیں
راستہ دل تلک تو جاتا تھا
اس کا پہلا پڑاؤ آنکھیں تھیں
سرد ہوتے ہوئے وجود میں بس
کچھ نہیںتھا الاؤ آنکھیں تھیں
سیما غزل کے شعری مجموعوں میںحسن و عشق نقطۂ عروج پر ہے۔ترقی پسند جذبے سے معمور تازگی و شگفتگی سے لبریز ذہن کے دری چوں کو متاثر کرنے والالب و لہجہ اردو داں طبقے کو متاثر کرتا ہے۔ایساجاوداں کلام سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ان کے متعدد اشعار ان کے مزاج کی اس افتاد طبع کے جوہر ہیں جو نقش اول کی ہونے کے باوجود مجھے امید ہے کہ شاعری کے آخری سفر تک کے رموز و نکات کو آشکار کرتے رہیں گے۔
سیماغزل کی شاعری نفیس و نازک احساسات سے مزین ہشت پہلونگینے کی مانند ہے جن سے معانی کی شعاعیں پھوٹتی ہیں۔ان کے شعری سرمائے سے شاعری کے مواقف کی صاف نشاندہی ہو رہی ہے۔دراصل یہ تجربات آفاقی احساسات سے مزین ہیں۔ان کا ہر شعر غنائیت،خیال اور طرفگیٔ ادا کامظہر ہے،ان کے ّآّئینہ گفتار میں ایک لطیف نغمگی کے ساتھ عمدگی اظہار کی بے باکی روان دواں ہے جس میں فنی چابکدستی اور جمالیاتی برتاؤ تراشیدہ ہیرے کی مانند ہیں۔
چراغ تیز ہوا کی نہ زد پہ آ جائے
کھلا رہے نہ دریچہ خیال رکھئے گا
بہت ہی غور سے دیکھا نہ کیجئے مجھ کو
ہے میری آنکھوں میں دریا خیال رکھئے گا
تیرے جانے کا واقعہ لکھوں
اب کیا میں یہ بھی سانحہ لکھوں
جی یہ کرتا ہے اب محبت میں
بس کسیلا سا ذائقہ لکھوں
پہلے شعر میں چراغ،ہوا دریچہ۔دوسرے شعر میں دیکھنا ،خیال اور دریا،تیسرے شعر کے قوافی میں واقعہ اور سانحہ کا التزام اور چوتھے شعر میں محبت ذائقہ کسیلا۔پر غو کریں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ سیما غزل نے لفظوں کے التزام اور نظام سے اپنے شعر میں ایک ڈرامائی منظر نامہ کی تشکیل بڑی خوبصورتی سے کرتی ہیں۔یہ ڈرامائی عنصر ان کی شاعری کا وصف خاص ہے جو ان کے یہاں جگہ جگہ نظر آتا ہے۔
’’معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود‘‘کے مصداق سیما غزل کا شعری کارنامہ اردو زبان کے سرمائے کو جلا بخشنے کے لئے کافی ہے۔

About ڈاکٹر محمد راغب دیشمکھ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

Scroll To Top
error: Content is protected !!
Visit Us On TwitterVisit Us On Facebook