٭ڈاکٹر ذکیہ رانی
اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو جامعہ کراچی۔
عالمِ روزگار میں بہت سے ملکوں میں بہت سے شہر اپنی تہذیبی قدروں کے سبب یاد کیے جاتے ہیں۔ عروس البلاد کراچی کااحوال بھی اُن ہی شہروں کی مانند سمجھنا چاہیے۔قیامِ پاکستان سے قبل بھی کراچی بندرگاہ اورتجارتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ علمی وادبی سرگرمیوں کا گہوارہ تھا ۔قیامِ پاکستان کے بعد دارالحکومت کا قرعہ فال بھی ہمارے کراچی کے نام نکلا جس کے سبب ہجرت کرکے آنے والوں نے جہاں مسائل مہاجرت ،معاش وغیرہ کی جانب توجہ رکھی وہیں اس شہر میں علم وادب کی ویسی ہی مرکزیت قائم کرگئے کہ جیسی ہندوستان کے مختلف شہروں میں تھی۔قیام پاکستان کے بعد کے شہر کی سماجی وادبی زندگی کا چلتا پھرتا احوال ملاواحدی کی تحریروں میں جگہ جگہ پڑھنے کو مل جاتا ہے اسی طرح اور بھی اکابرادباء نے اس عہد کی ثقافتی تہذیب کو تاریخ کے صفحہ قرطاس پر منتقل کردیا اورآج ہم اس کراچی کو’’ تصورجاناں‘‘ کی طرح محسوس بھی کرسکتے ہیں اوراپنے حال پر افسوس بھی!!!
کراچی نے قیام پاکستان تا سقوطِ ڈھاکہ کئی ادوار دیکھے اورکئی ناموروں کے قدم یہاں کی خاک پر اپنے نقش ثبت کرگئے۔ہائے کیسے کیسے لوگ تھے وہ کہ اس شہر کے ذہنوں میں اجالا کرگئے۔اس شہر کے سینے سے لگ کر کتنے ہی پتھر دُرِ بے بہا بنے !!کہ اُن کے ناموں سے کراچی کی ادبی تاریخ جگمگارہی ہے ۔
سیّد عون عباس شعبہ ٔ ابلاغِ عامہ ،جامعہ کراچی کے ہونہار طالب علم ہیں اورایک حساس دل رکھنے والے مستقبل کے معماربھی!!
سیّد عون عباس کوابھی بہت سے کارہائے نمایاں سرانجام دینے ہیں اوران کارناموں میں سے ایک کارنامہ ’’ہم کا استعارہ‘‘کے عنوان سے میرے سامنے ہے۔اس کتاب میں پیش لفظ ہمارے استادِ محترم پروفیسرڈاکٹر شاداب احسانی نے تحریر کیا ہے اور’’ یارب چمنِ علم کو گلزارِ ارم کر‘‘ کا مصرعہ نوجوان مصنف کا احوال ِ واقعی ووقوعی بیان کررہا ہے۔
’’ہم کا استعارہ :یاورمہدی:سوانح اورکارنامے‘‘ اردو سوانح نگاری میں اس لیے بھی اہم ہے کہ قیامِ پاکستان تا اکیسویں صدی یعنی عہدِ حاضرتک کی علمی وادبی ،تہذیبی زندگی کراچی کے تناظرمیں ہنستی بولتی نظرآتی ہے۔
سیّد یاورمہدی کی سوانح خود ایک تہذیبی بازیافت ہے ۔ان کی اصول پسندی،حق گوئی و بے باکی کے ساتھ ساتھ اس تہذیبی چلن سے ہم متعارف ہورہے ہیں کہ جو ہمارے اسلاف کی میراث ہے۔ستّر سالہ پاکستان میں اب لوگ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے جو قدیم روایات کا اس طور بیان کرسکیں ۔اس عہد میں کہ جب محمود وایاز ایک ہی صف میں باہم شیر وشکر تھے آج اس کا نوحہ خواں بھی کوئی کہاں سے لائے۔اس کتاب میں ہم یاورمہدی کو تمام تہذیبی لوازمات اور شعور کے ساتھ جلوہ افروز پاتے ہیں۔
یاورمہدی کا ایک حوالہ ریڈیو بھی ہے گو کہ وہ کم عمری ہی سے بزرگانہ متانت کے حامل ہوگئے تھے اور اپنے دورِ تعلیم میں چکبست سوسائٹی کے بانی وسرگرم رکن بھی لیکن کراچی میں تنظیم سازیوں اورمختلف ادبی ثقافتی تنظیموں کے ساتھ ریڈیو پاکستان کراچی کا لاحقہ ان کی شخصیت کا ہی حصہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ریڈیوپاکستان کراچی نے قیام ِ پاکستان کے بعد عدم سے وجود کا سفر کیا طے کیا کہ کسی پھریرے کی طرح لہرا نے لگا۔اس عَلم کو سربلند رکھنے میں جید اورثقہ ادیبوں زیڈ اے بخاری،آغا ناصر،حفیظ ہوشیارپوری،سلیم احمد،عزیز حامد مدنی،احمد ہمدانی وغیرہ نے اپنے حصے کا کام خوش اسلوبی سے انجام دیا اورجب یاورمہدی کے ہاتھ یہ عَلم آیا توان کی کوششوں نے ریڈیو کو عصر سے ایسا جوڑا کہ ملکی وبین الاقوامی سطح پر اسے سربلند کردیا۔انھوں نے ریڈیومیں بے شمار پروگرام کیے اوربڑوں کے ساتھ بچوں میں بھی مقبول ہوئے۔نوجوانوں کے لیے ’’بزمِ طلباء ‘‘کے ذریعے ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا کہ آج کے نوجوان بوڑھے یہ کہتے ہیں کہ ہم نے یہ شستہ لہجہ ریڈیوکے پروگرام ’’بزمِ طلباء‘‘ سے سیکھا ہے۔ریڈیو محض ذرائع ابلاغ کا نشریاتی آلہ نہیں رہ گیا بلکہ گھر کے فرد کی طرح تمام احباب کااحوال ہوگیا تھا۔جو کام آج فیس بک اوردیگر سوشل میڈیا کے ذریعے انجام پارہا ہے وہ یاور مہدی ریڈیو کے ذریعے انجام دیاکرتے تھے البتہ آج کا سوشل میڈیا اتنا مؤثر نہیں کہ جتنا ریڈیو ہوا کرتا تھا۔ شہرِ کراچی کہ جہاں رات دن کی گردش ابلقِ ایّام پر سوار کہ نہ پا رکاب میںہے نہ ہاتھ میں ہے باگ!! اس شہر نے بہت سے عالی قدر احباب کی آنکھیں دیکھ رکھیں ہیں ۔گواب ٹی۔ وی کا دوردوراں ہے مگر ریڈیو کا رومانس اب بھی کم نہیں ہوا۔سیّد عون عباس نے آواز کی دنیا میں یاورمہدی کے کارناموں کو یکجا کرکے اس تاریخی دورکو محفوظ کردیا اوراس عہد کے پروگراموں کی خوش رنگ تصاویر کا البم کتاب کے آخر میں سجا کر محاکات کو مصورکردیاہے۔کئی برسوں سے ہم پروفیسر شاداب احسانی کا ایک فقرہ سنتے آرہے ہیں کہ :
’’محنت کرلو،شہر میں اب کوئی نہیں بچا ہے قحط الرجال ہے ،خاک اڑرہی ہے خاک!!‘‘
سیّد عون عباس بھی اسی شہرکے خمیرکاحصہ ہیں۔ انھیں اپنے اجداد سے جو میراث ملی ہے اس نے انھیں بڑی جلدی یہ باورکرادیا کہ
’’جس عہد میں مَیں زندہ ہوں وہاں مجموعی اچھائی کا فقدان ہوچکا
ہے جبکہ مختلف گروہوں کے رہنما پائے جاتے ہیں۔‘‘
ایسی ژرف نگاہی اس عمر میسر آجائے تو جان لیجئے کہ آنے والے دنوں کا کراچی اوراس کا قحط الرجال اپنی ساڑھستی کے دن پورے کرچکا اورسیّدعون عباس جیسے علم وادب کے پیاسے اس صحراکو سمندر سے ہی سیراب کردیں گے اوریقینا یہ سراب نہیں حقیقت ہے۔ہمارا عہد بونوں کا شہر ہے … ایک بعد ایک بونا اوربس !!سمائی،لحاظ ،صداقت،ایثار یہ لفظ اب شرمندۂ تعبیر ہوتے جارہے ہیں۔
سیّد یاور مہدی کی سوانح کا علمِ نجوم اوریاداشتوں کے ساتھ ساتھ مشاہداتی احوال اورکارناموں کا ہر پہلو سے جائزہ لیتا یہ مصنف اپنے عہد کے قحط کو کم کرنے میں کوشاں نظرآتاہے۔ انھوں نے یہ مقالہ لکھا تو شعبۂ ابلاغ ِ عامہ کے لیے ہے لیکن اس کا اسلوب صحافیانہ کم اورادبی زیادہ ہے۔ماضی میں صحافت ادب کے راہ سے کیا گزری کہ ادبی تخلیقیت اکہرے اظہار پر آکر ٹک گئی اور اکہرے اظہار نے بڑی تخلیقی توانائیوں کو پنپنے ہی نہ دیا ۔اس سوانح کا اسلوب یقینا اد ب کی گردشِ ایّام کو پھرسے تخلیقی اظہار سے مبدّل کرنے میں بارش کا پہلا قطرہ کہا جاسکتا ہے۔
سیّد عون عباس کے بارے میں یہ کہا جائے تو بے جا نہیں کہ پوت کے پاؤں پالنے میںنظرآجاتے ہیں! ! امید ہے کہ مستقبل میں ان کی شخصیت اردوزبان وادب کے حوالے سے قدآور ہوگی۔ان میںجوش،ولولے کے ساتھ ساتھ انکساری اورخوئے خاکساری بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔جو ہر اُس شخصیت کا خاصہ ہوتی ہے جسے مستقبل میں بڑا بننا ہوتا ہے۔میں نے کہیں پڑھا تھا کہ عظیم لوگ پید انہیں ہوتے حالات لوگوں کو عظیم بنادیتے ہیں ۔سو سیّد عون عباس کی عظمت کے اسباب تو ہوتے جارہے ہیں ربِ کائنات سے دعا ہے کہ انھیں چمنِ علم وادب میں سدابہار شخصیت بنائے۔انھیں آسانیاں عطا ہو ں اوریہ آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف پائیں۔آمین