تحریر:ڈاکٹر محمد اشرف کمال
صدر شعبہ اردو گورنمنٹ کالج بھکر
شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیر پور سندھ میں ۲دن کی بین الاقوامی کانفرنس کے بعد ڈاکٹر یوسف خشک اور ڈاکٹر صوفیہ خشک کی قیادت اور رہنمائی میںتیسرے دن تمام ملکی و غیر ملکی شرکائِ کانفرنس کو کوٹ قلعہ کوٹ ڈیجی ، موہنجوڈرو کے علاوہ سچل سرمست کے مزار پر بھی حاضری دی۔
سچل سرمست کے مزار پر حاضری دینے والے ان مندوبین میںجرمنی سے ڈاکٹر تھامس اسٹیمر، ترکی سے ڈاکٹر آرزو،ایران سے ڈاکٹر وفا یزداں منش،سویڈن سے پروفیسر ڈاکٹر ہینز ورنر ویسلر ، مصر سے ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم ،ڈاکٹر اسامہ شیلبی،ڈاکٹر ہند عبدالحلیم،برطانیہ سے یشب تمنا ،مہ جبین غزل انصاری،امریکا سے بینا گوئندی، ڈنمارک سے صدف مرزا، پاکستان سے ڈاکٹر فاطمہ حسن، ڈاکٹر وحیدالرحمن، ڈاکٹر عقیل احمد جعفری، ڈاکٹر مقبول گیلانی،ڈاکٹر اشرف کمال،، سید طارق حسین، میجر اعظم کمال، ڈاکٹر ظفر حسین ظفر، ڈاکٹر عبداللہ جان عابد، ڈاکٹر نبیلہ رحمٰن،ڈاکٹر عظمیٰ سلیم،ڈاکٹر نورین رزاق، ڈاکٹر جاوید اقبال(کوئٹہ)، عامر سہیل (ایبٹ آباد)، ڈاکٹر غلام قاسم مجاہد بلوچ ،ڈاکٹر قاضی عبدالرحمٰن عابد ، ڈاکٹر عابد حسین سیال ،رخسانہ بلوچ، طیبہ نگہت، شامل تھے۔
دو دن کی کانفرنس ، عالمی مشاعرے اور موسیقی کی محفل کے بعد کوٹ ڈی جی،موہنجوڈرواور سچل سرمست کے مزار پر حاضری دراصل ڈاکٹر یوسف خشک اور ڈاکٹر یوسف خشک کی طرف سے ایک ایسا پروگرام تھا جس کی وجہ سے مندوبین نے ان تاریخی مقامات کی سیر کی ۔
کوئی گیارہ بجے کے قرین تمام مندوبین دو گاڑیوں میں قلعہ ڈی جی کوٹ کے بعد سچل سر مست کے مزار پر پہنچے۔مزار سے باہر دو رویہ بازار تھا ۔سڑک کے دونوں طرف دکانیں تھیں جن میں بھانت بھانت کا سامان موجود تھا۔ زیادہ تر سامان کھانے پینے سے متعلق تھا۔اور ان دکانوں میں ترتیب سے سجا ہوا سامان سندھی تہذیب وثقافت کی عکاسی کر رہا تھا۔بسوں سے اترنے کے بعد دائیں جانب سچل سرمست کے مزار کا راستہ تھا۔ جیسے ہی آگے بڑھے تو تیس چالیس قدم کے بعد مزار کی حدود شرو ع ہوگئی ۔ یہاں دوتین سیڑھی چڑھ کر اوپر مزار کے احاطے میں جانا پڑتا ہے۔ یہیں سیڑھیوں پر جوتے اتار دیے جاتے ہیں۔ یہاں دائیں جانب کتابوں کا ایک بہت بڑا اسٹال لگا ہوا تھا جس میں مختلف اموضوعات پر کتابیں شامل تھی۔ زیادہ تر کتابیں سندھی زبان میں تھیں اور کچھ اردو میں بھی تھیں۔
ہم جوتے وہاں اتار کر آگے بڑھے یہ ایک بہت بڑا صحن تھا جس کے بائیں جاب سچل سرمست کے مزار کا دروازہ تھا۔ مزار کے ارد گرد بہت سی قبریں بنی ہوئیں تھی۔ اندر جاکر ایک بڑا کمرہ تھا جس کا گول گنبد بہت اوپر اونچائی پر تھا۔اوپر چاروں طرف ہوا اور روشنی کے لیے روشندان بھی بنائے گئے تھے۔
سچل سرمست کے آباؤاجداد محمد بن قاسم کے ساتھ ۷۱۲ھ میں آئے تھے۔محمد بن قاسم کے ساتھ حضرت عمر فاروق کے پڑ پوتے شیخ شہاب الدین بن عبدالعزیز بھی آئے تھے۔جو کہ سہون فتح ہونے کے بعد یہاں گورنر لگا دیے گئے۔اس طرح ان کا خاندان سہون کا حکمران بھی رہا۔یوںان کا شجرہ نسب حضرت عمر فاروق سے جا کر ملتا ہے۔سچل کا خاندان سہون، رانی پور اور پھر ہجرت کرکے ریاست خیرپور میں آباد ہوگیا یہاں ان کی زمینیں اور جاگیریں تھیں۔ان کے دادا کا نام خواجہ محمد حافظ عرف میاں صاحب ڈنہ ( صاحب ڈینو) تھا۔ اور ان کے والد کا نام خواجہ صلاح الدین تھا۔
سچل سر مست کا اصل نام خواجہ عبدالوہاب تھا۔جو کہ ۱۱۵۲ھ/۱۷۳۹ء میں درازا شریف میں پیدا ہوئے۔جو کہ ریاست خیر پور کا ایک گاؤں تھا۔شاہ عبداللطیف بھٹائی کی وفات کے وقت سچل سرمست کی عمر ۱۴ برس تھی۔سندھ میں مغلوں کی حکومت کا خاتمہ ہوچکا تھا۔سندھ میں کلہوڑا خاندان کی حکومت تھی۔سچل سرمست کے زمانے میں ریاست خیر پور میں تالپور حکمران تھے۔
سچل سر مست نے عربی فارسی، سندھی کی خاص تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے قرآن وحدیث اور مذہبی تعلیم حاصل کی ۔ انھوں نے چھوٹی عمر میں ہی قرآن مجید حفظ کر لیا تھا۔انھون نے روحانی تعلیم اپنے چاچاسائیں عبدالحق سے حاصل کی، ان کے روحانی پیشوا نے ہی انھیں سچل کا نام دیا جو کہ بعد میں مشہور ہوگیا۔وہ زیادہ تر وقت عبادت وریاضت میں بسر کرت تھے۔انوھن نے روحانی مرتبہ حاصل کیا۔ اور معرفت کی دنیا میں نام کمایا، ہر وقت ورد اور وظائف میں مصروف رہتے تھے۔۱۳/۱۴ رمضان ۱۲۴۲ھ/۱۸۲۹ء میں ان کا وصال ہوا۔ ہر سال ۱۴ رمضان کو ان کا عرس منایا جاتا ہے۔انھوں نے صوفیانہ خیالات اور سندھی ثقافت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
سچل سر مست نے اردو، سرائیکی، سندھی، عربی ،فارسی ،پنجابی، ہندی میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔انھوں نے جن اصناف ادب میں اپنے آفاقی خیالات کا اظہار کیا ان میں کافی،غزل، مثنوی، سی حرفی، جھولنہ، گھڑولی، مولود، ابیات، رباعی، مسدس،دوہڑا، مخمس جیسی اصناف قابل ذکر ہیں۔
سچل سرمست فارسی میں تخلص آشکارا اور سندھی ،سرائیکی میں سچل یا سچو استعمال کرتے تھے ۔(تاریخ ادبیات،مسلمانان پاکستان وہند، چودھویں جلد، ص۲۹۴)
سچل سرمست نے تاریخی حوالے سے وہ دور دیکھا جس میں افرا تفری تھی،ہندوستان اور بالخصوص پنجاب اور سندھ میں سماجی وسیاسی اور نعاشی حوالے سے اتار چڑھاؤ ، اکھاڑ پچھاڑ اور لوٹ مار کا بازار گرم تھا۔ سندھ کے حکمران آپس میں جنگ وجدل میں مصروف رہتے۔ سچل سرمست ۱۷۳۹ء میں پیدا ہوئے تو یہی وہ سال ہے جس میں نادر شاہ نے دلی پر حملہ کیا اور پھر سندھ کی سر زمین کو تاراج کیا۔اور یہاں کے حکمرانوں سے خراج وصول کیا۔اس کے بعد رہی سہی کسر احمد شاہ ابدالی کے حملوں نے پوری کردی۔سندھ پر سکھوں(جودھ پور کا راجہ بجے سنگھ)، پٹھانوں(مدد خان پٹھان) نے بھی حملے کیے۔بعد میں انگریزوں کے کارندوں نے یہاں نفرت اور فساد کا وہ بیج بویا جس نے سندھ کے اندر بے سکونی اوردشمنیاں پیدا ہوگئیں جس سے انگریزوں کی حکمرانی کے لیے راستہ صاف ہوگیا۔
سچل سرمست نے اپنی شاعری کے ذریعے ان حالات سیاسی وسماجی حوالے سے دگرگوں حالات میں ٹوٹے دلوں پر محبت کا مرہم لگایا۔اور اپنے آفاقی کلام کے ذریعے یہاں کے لوگوں کے دکھ درد کو بانٹا اور انھیں امن، رواداری اور بھائی چارے کا درس دیا۔انھوں نے انگریز حکومت کی چالوں اور آنے والے خطرات سے لوگوں کو آگاہ کیا۔ان کا پسندیدہ موضوع وحدات الوجود کا فلسفہ ہے۔
ان کی شاعری میں موضوعات اور سوچ کے حوالے سے بڑا تنوع ملتا ہے۔انھوں نے اپنی شاعری میں تصوف، شریعت، طریقت اور درپیش صورت حال کو موضوع بنایا ہے۔(اسلم رانا‘ڈاکٹر، سچل سرمست۔ احوال، آثار تے سرائیکی کلام دا معروضی تجزیہ، لاہور عزیز پبلشرز، ۱۹۹۵ء،ص۳۸)
سچل سر مست عشق کو زندگی کا بنیادی اور مرکزی جذبہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال مین اگر عشق نہیں تو کچھ بھی نہیں۔
بغیر عشق دے ڈوجھا کوئی کمال نہیں
نہیں جو عشق تے اے دوست تیڈا حال نہیں
ان کے خیال میں ان کے محبوب جیسا کوئی دوسرا نہیں اور اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔
سجن کوں جَیں بھی ڈٹھیا تھی، گِیا اوہ دیوانہ
رہیا نہ ہوش اُہیں کوں، تھِیا اوہ مستانہ
سجن دی ڈوجھی کوئی مثال نہیں
عشق میں ہجر انسان کو بیکا کر دیتا ہے۔ سچل کی شاعری میں ہجر ایک ایسا زہر ہے جو عاشق کو کسی کام کا نہیں چھوڑتا:
ہجر تساڈے کاہل کیتا زہر پیالا میں بھر پیتا
تیں بن کائی شے نئیں بھاندی
طرف تساڈے کانگ اڈاواں آون کیتے فالاں پاواں
کیوں اجاں تیڈی خبر نہ آندی
اسی طرح محبوب کی یاد سچل کو تڑپاتی رہتی ہے۔
یاد تیڈی میکوں نِت تڑپھاندی
محبوب کی آنکھوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ محبوب کی آنکھوں میں غضب کی چمک ہے جس سے بچنا نا ممکن ہے۔ان کی غزل سے چند اشعار دیکھئے:
چشماں چمک چمک کر دل تے اثر ہے کیتا کیا بات ہے اثر دی، بالکل حشر ہے کیتا
ہک ڈینہہ تماشے کیتے، بازار وچ گیا ہا وچ ہائے ہائے عاشق سارا شہر ہے کیتا
لکھ میر شاہزادے حیران ڈیکھ ہوندے ڈیکھ آپنی غریبی سالک صبر ہے کیتا
مزید محبوب کی شان میں یہ شعر ملاحظہ کیجئے:
سچل سجن نرالا چمکار چیر والا
ہتھ وچ ہے تیغ بھالا‘زخمی جگر ہے کیتا
ان کے دوہڑون میں حسن وعشق اور محبوب کی خوبصورتی کے لیے جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ منفرد ہیں:
چمکن جھلکن رُخ تے، واہ موتی دے دانے
ساگی صورت حق دی ڈیکھو جے کوئی آن سنجانے
جھلکن جوڑ جبیں تے جادو یار سوہنے کوں بھانے
سچل قدر انھاں دا جاناں یاں وت آپ اُوہ جانے
ان کی شاعری میں تکرار لفظی اور لسانی خوبیوں سے کام لیا گیا ہے۔ ول ول وال سو چھلے چھلے ،چھلے چھلے وال سوہنے دے،ول ول چھلے چھلے، حسن حسیناں اُتوں، ڈیکھ ڈوہیں رَل بیٹھے، چٹ چٹ تنھاں دے چٹکے، خوش خورشیدے خوبی، چمکن جھلکن جھمکن رخ تے، چوڈس چند ہے مونہہ محبوبی، حکماں حکم پھسایُس، کھِل کھِل دِلڑی کھس دا، سوہنے دیاں وت سوہنیاں گالھیں،روواں زواروزار، گجھیاں گجھیاں تیڈیاں گالھیں، تیں میں توں کیوں دل چائی، تن من تیڈی تار جیسے الفاظ کا استعمال شعروں میں صوتی اور تاثراتی حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں۔
ان کی درج ذیل کافی دیکھئے کہ کس طرح قافیوں کو استعمال کیا گیا ہے۔ اڑکن ہو اڑکن، چھڑکن ہو چھڑکن، کڑکن ہو کڑکن، پھڑکن ہو پھڑکن ، تھڑکن ہو تھڑکن، لڑکن ہو لڑکن، بھڑکن ہو بھڑکن، تکرار لفظی کی خوبصورتی سے صوتی تاثر ابھرتا ہے۔
سوہنے نال اساڈیاں اکھیاں، اڑکن ہو اڑکن
بار برہ دے دردمنداں تے، چھڑکن ہو چھڑکن
غمزے یار سجن دے دو، کڑکن ہو کڑکن،
درتیڈے تے عاشق شوہ دے، پھڑکن ہو پھڑکن
سوز تیڈے توں برہے والے ، تھڑکن ہو تھڑکن
عشاقاں دے سِر سولی تے، لڑکن ہو لڑکن
بھاہئیں سچل میڈے دِل وچ، بھڑکن ہو بھڑکن
قافیوں کے علاوہ اس کافی میں اساڈیاں اکھیاں، بار برہ، عاشق شوہ دے، سِر سولی جیسے الفاظ بھی صوتی حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں۔
درج ذیل کافی میں بھی سچل سرمست کے لفظوں میں عشقیہ جذبات اور دلی کیفیات کا اظہار خوبصورت صوتی تاثر رکھنے والے الفاظ میں کیا گیا ہے۔
آنگن میڈے آویں آویں ،دامن لگڑی چھوڑ نہ جاویں
جیہی تیہی تیڈی ہاں میں ، چِت نہ میں توں چاویں
وہویں نال ہمیشہ ساڈے، دلبر دور نہ جاویں
سچل ہے سگ در تیڈے دا، پیر اُہیں ڈوں پاویں
ہجر اور جدائی ان کی شاعری کا وہ کرب ہے جسے ان کی غزل کے اس شعر میں محسوس کیا جاسکتا ہے
یارو اُوں یار دے باجھوں جُدا جالن میکوں مشکل
بیراگن میں پھراں اینویں جیویں باغاں بناں بلبل
سچل عشق کی بازی کو سب سے بڑی بازی قرار دیتے ہیں۔
اس بازی وچ سر بازی ہے
سِر ڈیون سر افرازی ہے
سچل سر مست کی شاعری میں حقیقی عشق اور تصوف کے حوالے سے جن خیالات اور احساسات کا اظہار کیا گیا ہے وہ سرائیکی زبان میں ایک قیمتی شعری ذخیرہ ہے۔
مولا کی تصویر بے رنگ ہوتے ہوئے بھی بے رنگ نہیں ہے:
بے رنگی تصویر مولا دی
سو رنگین وچ سمایا ہے
ان کی شاعری میں صوفیانہ رنگ جھلکتا ہے جس میں بے باکی، دلیری، سچائی اور صداقت نثر آتی ہے۔ان کے کلام میں روحانی حوالے سے انسانی ارتقا کی منازل ملتی ہیں۔ ان کی شاعری میں تصوف طریقت اور شریعت کی وہ لہر ملتی ہے جو انھیں خود سے بیگانہ کردیتی ہے اور وہ ایک ذات حقیقی کے حسن کے رنگوں میں محو ہوجاتے ہیں۔
سچل سرمست کی سرائیکی اور سندھی شاعری نے آنے والے وقت میں سرائکی اور سندھی ادب کو متاثر کیا۔ان کا کلام اپنی پہچان کے بعد خالق حقیقی کے عرفان کی طرف لے جاناے والا ذریعہ ہے۔ان کی شاعری میں تصوف اور معرفت کا خزانہ چھپا ہوا ہے۔