سرسید نے مسلمانوں کو ذلت اور تباہی سے نکالا
سرسید کے دو سو سالہ یوم ولادت کے موقع پر منعقدہ پروگرام میں سرکردہ شخصیات کا اظہار خیال
٭ پدم شری قاضی عبد الستار کو جامعہ اردو کی جانب سے ’بابائے ادب‘
٭ نواب ابن سعید خاں چھتاری کو ’محسن اردو‘
٭ پروفیسر عبد الرحیم قدوائی کو ’افتخار اردو‘
علی گڑھ ،(اسٹاف رپورٹر) سرسید ایک ایسے انقلاب کے رہبر تھے جو کسی بھی سیاسی انقلاب سے زیادہ اثر دار تھا۔ ہم ان کے انقلاب کو ایک دانش ورانہ انقلاب کہہ سکتے ہیں۔ ان کی ساری توجہ مسلمانوں کی تعلیم پر تھی اور وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ تعلیم کے ساتھ مسلمانوں کی صحیح تربیت بھی ہو۔ اس لیے انہوں نے علی گڑھ تحریک شروع کی۔ ان خیالات کا اظہار جامعہ اردو کے او ایس ڈی فرحت علی خاں نے سرسید کے دو سو سالہ یوم ولادت کے موقع پر جشن سرسید میں کیا۔ جامعہ اردو علی گڑھ میں گزشتہ روز جشن سرسید منایاگیا جس کے مہمان خصوصی علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے چانسلر نواب ابن سعید خاں چھتاری تھے۔ جلسہ کی صدارت پدم شری قاضی عبد الستار نے کی۔ قاضی عبد الستار نے کہا کہ سرسید کی صحیح تحریک کی علم بردار آج صرف جامعہ اردو ہے جو مسلمانوں کی تعلیم پر توجہ دے رہا ہے۔ مجلس قومی انضمام اترپردیش کے رکن اور وزیر مملکت مجاہد قدوائی نے کہا کہ سرسید نے اصلاح کی کوشش اس وقت شروع کی جب قوم کا شیرازہ بکھر چکا تھا اور مسلمانوں میں افسردگی اور مایوسی چھائی ہوئی تھی۔ سرسید نے مسلمانوں کو ذلت اور تباہی سے نکالا۔ عارف غوری گورنینس صلاح کار برطانوی ہائی کمیشن نے کہا کہ سرسید نے جو پودا لگایا تھا آج وہ درخت بن چکا ہے۔ پروفیسر عبد الرحیم قدوائی نے بتایا کہ سرسید کا کہنا تھا کہ ہم کو خدا نے اس لیے پیدا کیا کہ ہم سب کی بھلائی چاہیں۔ پروفیسر غضنفر علی نے سرسید پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ دہلی یونی ورسٹی شعبہ اردو کے صدر پروفیسر ابن کنول نے جامعہ اردو کی اردو تحریک کی کوششوں کو سراہا اور کہا کہ تاج محل یا لال قلعہ بنانے کے بجائے مغل بادشاہ کوئی یونی ورسٹی بناتے تو زیادہ فائدہ ہوتا جو سرسید احمد خان نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ آٹھ سو سالہ حکومت میں ہندوستان میں ایک بھی یونی ورسٹی قائم نہیں ہوئی جبکہ بغداد، مصر اور اٹلی میں یونیورسٹیاں قائم ہوچکی تھیں۔پروفیسر صغیر افراہیم ایڈیٹر تہذیب الاخلاق نے سرسید کو مصلح قوم اور مجدد ادب بتایا۔
پدم شری قاضی عبد الستار کو جامعہ اردو کی جانب سے ’بابائے ادب‘، مہمان خصوصی نواب ابن سعید خاں چھتاری کو ’محسن اردو‘ مجاہد قدوائی کو ’رہبر اردو‘ عارف غوری کو ’ستارۂ اردو‘پروفیسر عبد الرحیم قدوائی کو ’افتخار اردو‘ ، پروفیسر غضنفر علی کو ’ذیشان اردو‘ ،مشتاق احمد نوری کو ’وقار اردو‘، پروفیسر ابن کنول صدر شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی دہلی کو ’پہچانِ اردو‘، پروفیسر صغیر افراہیم کو ’فخر اردو‘، نواب جاوید سعید کو ’پاسبان اردو‘ اور ڈاکٹر اشتیاق احمد کو ’آواز اردو‘ کے اعزازات دیے گئے۔
جامعہ اردو میں گزشتہ دنوں سے سرسید تقریبات میں جن طلبہ وطالبات نے سرسید مضمون نویسی، سرسید کوئز اور سرسید ڈیبٹ کمپٹیشن میں انعامات حاصل کیے ان کو جلسے میں صدر اور مجاہد قدوائی نے اپنے دست مبارک سے انعامات اور سرٹیفکیٹ بھی تقسیم کیے۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے کئی موجودہ اور سابق پروفیسر بھی موجود تھے جن میں پروفیسر صلاح الدین قریشی، پروفیسر اے آر فتیحی، ڈاکٹر افشا ملک، ڈاکٹر آصف اظہار اور اس کے علاوہ رضوان علی خاں، خلیل احمد چودھری، رگھوراج سنگھ، فرید احمد، انیس خاں شامل تھے۔ جشن سرسید ظہرانے کے بعد تین بجے ایک قومی سمینار منعقد ہوا جس کا موضوع تھا ’تعلیم اور مسلمانوں کی خود مختاری‘۔ اس کی صدارت لکھنؤ کے مشہور سرجن رفیق احمد نے کی اور مہمان خصوصی ڈاکٹر سید رضا حیدرد ڈائرکٹر ، غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی رہے۔ ممتاز مہمان میں پروفیسر صلاح الدین قریشی تھے۔ سمینار میں بھاری تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ سمینار کے اختتام پر جامعہ اردو کے تقریباً آٹھ سو مراکز سے آئے مہتمم مراکز کے لیے ایک ورکشاپ کا بھی انعقاد ہوا جس میں آئندہ کے لیے لائحہ عمل طے کیا گیا۔