سردار سلیم کے انقلابی اقدام کی بھرپور ستائش۔
مطالعہ اور مشق سے ہی مشکل علوم کا حصول ممکن ہے۔
ادب گاہ کے بارھویں ورکشاپ میں ماہرین تعلیم کا خطاب۔
حیدرآباد 15نومبر (راست) ادبیات عالم میں اردو شاعری کا مقام بہت بلند ہے، عربی،فارسی اور اردو زبانوں میں مشترکہ عروضی نظام رائج ہے،تاہم اردو شاعری کا مزاج دیگر زبانوں کے بالمقابل جداگانہ نوعیت کا حامل ہے، جو لوگ اردو شاعری کے فن سے وابستہ ہیں انہیں حرف و بیاں کے تخلیقی رموز سے اچھی طرح واقفیت حاصل کرنی چاہیے ٬ ان خیالات کا اظہار اردو کے شہرہ آفاق شاعر مہتاب قدر (جدہ) نے 13نومبر کی شب ادب گاہ حیدرآباد میں منعقدہ درس شاعری کے موضوع پر منعقدہ بارھویں ورکشاپ کے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کیا- اس تاریخ ساز ورکشاپ میں مہتاب قدر کے علاوہ ڈاکٹر میم قاف سلیم اور فاروق طاہر نے بہ حیثیت مہمان اعزازی شرکت کی اور اپنے زریں خیالات سے نوازا- حیدرآباد کے ممتاز محقق ادیب، نقاد اور سینیر صحافی ڈاکٹر میم قاف سلیم نے اپنے خطاب میں سردار سلیم کی علمی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ نئی نسلوں میں فنون لطیفہ بالخصوص شعرو شاعری کے نازک اور خوبصورت تخلیقی ہنر کو اس قدر سنجیدگی کے ساتھ مخلصانہ انداز میں منتقل کرنے کا جو بیڑہ سردار سلیم نے اٹھایا ہے یہ ایک بہت بڑا انقلابی اقدام ہے، ان کی عروضی معلومات اور فن شعر گوئی سے متعلق ان کے ذخیرہ علم سے ادب کے طالب علموں کو بھر پور استفادہ کرنا چاہیے،، درس و تدریس کی دنیا سے تعلق رکھنے والے بر صغیر کے مشہور مفکر اور ماہر تعلیم فاروق طاہر نے ہندو پاک کے ادبی منظر نامے کو سامنے رکھتے ہوئے بڑے ہی دردمندانہ انداز میں گہوارہ ادب حیدرآباد کودر پیش چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے میعاری ادب کے فروغ پر زور دیا، انھوں نے اپنے بصیرت افروز خطاب میں کہا کہ ہماری ادبی وراثت دقیانوسی مزاج اور سطحی فکر کے حامل لکیر کے فقیر قسم کے افراد کے ہاتھوں میں نہ جانے پائے، ولی، میر، ناصر کاظمی سے ھوتے ہوئے مخدوم ، شاذ اور جامی جیسے منفرد شعراء کی جنبشِ قلم سے نمو پانے والےادب کے جو اعلی اقدار حیدرآباد کی ادبی شناخت کو ساری اردو دنیا میں ممتاز کرتے ہیں ان اقدار کی حفاظت کے لئے ہمیں کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے، سردار سلیم کی ان کلاسس سے طلباء کی تخلیقی صلاحیتیں ابھر رہی ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ فنی سطح پر آج جو لوگ محتاج ہیں وہ کل خود مکتفی ہو جاءیں گے اور سردار سلیم کا نام انکی اس فیض رساں کوشش کی وجہ سے تاریخ کے صفحات میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا صدر ادب گاہ سردار سلیم نے شاعری کی تخلیقی کیفیات کے حوالے سے آمد اور آورد کا فرق سمجھاتے ہوئے کہاکہ عام طور پرشاعر دونوں طرح کی کیفیتوں سے گزرتا ہے،بر سر مجلس طلباء نے اشعار کی تقطیع کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کا بہترین مظاہرہ کرتے ہوئے مہمانوں کو مسرت سے سرشار کر دیا- درس کے بعد مہتاب قدر نے اپنے خوبصورت اشعار کے ذریعے سماں باندھ دیا، مشہور نعت خواں یوسف خان اعجاز نے مسحور کن انداز میں نعت شریف پیش کی،اس کے علاوہ سردار سلیم نے بھی اپنے منتخب اشعار سنائے، طنز و مزاح کے معروف شاعر وحید پاشاہ قادری اور لطیف الدین لطیف نے اپنے ظریفانہ کلام سے محفل کو زعفران زار بنا دیا- اس کے بعد اگلے ہفتے منعقد ہونے والے تیرھویں ورکشاپ کے لئے طرحی مصرع اجالا ہو گیا ہے” (قافیہ، نرالا، حوالہ) جاری کیا گیا جو کہ بحر ہزج مسدس محذوف کے وزن میں ہے اور اس کے ارکان ” مفاعیلن مفاعیلن فعولن” ہیں-