Home / خبریں / نئی دہلی عالمی کتاب میلے میں قومی اردو کونسل کے زیر اہتمام کل ہند مشاعرے کا انعقاد

نئی دہلی عالمی کتاب میلے میں قومی اردو کونسل کے زیر اہتمام کل ہند مشاعرے کا انعقاد

SAM_8010
نئی دہلی(اسٹاف رپورٹر)پرگتی میدان میں نئی دہلی عالمی کتاب میلے میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے زیر اہتمام ایک کل ہند مشاعرے کا ہنس دھونی تھیٹر میں انعقاد کیا گیا۔ مشاعرے کے آغاز میں قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر پروفیسر ارتضیٰ کریم نے سبھی شعرا کا استقبال کیا۔ انھوں نے مشاعروں کی اہمیت و افادیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ مشاعرے ہماری مشترکہ تہذیب کا اٹوٹ حصہ رہے ہیں اور مشاعروں نے اردو زبان و ادب کو فروغ دینے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ انھوں نے قومی اردو کونسل کی اشاعتی خدمات پر بھی روشنی ڈالی ساتھ ہی نیشنل بک ٹرسٹ کا بھی شکریہ ادا کیا ۔اس کل ہند مشاعرے کی صدارت ممبئی سے تشریف لائیں شاعرہ محترمہ رعنا تبسم نے کی جب کہ نظامت بنگلور سے آئے شاعر شفیق عابدی نے انجام دی۔اس مشاعرے میں گلزار دہلوی، وسیم بریلوی، شہپر رسول،پاپولر میرٹھی،لتا حیا، نصرت مہدی ، افضل منگلوری جیسے معروف شعرا نے اپنے کلام سنائے۔ پروفیسر ارتضیٰ کریم کے شکریے کے ساتھ مشاعرہ شام ساڑھے پانچ بجے اختتام کو پہنچا۔ مشاعرے کے آخر تک شائقین کی بڑی تعداد موجود رہی۔ پیش ہیں مشاعرے میں پڑھے گئے کچھ منتخب اشعار:
آپس میں یہاں کوئی بھی لڑنا نہیں چاہتا
کچھ لوگ مگر پیار سے رہنے نہیں دیتے
مختلف مذاہب کے لوگ ساتھ رہتے ہیں
ایک ملک ہے ایسا جس کو ہند کہتے ہیں
تمھارے آنے کی دن بھر تو آس رہتی ہے
پھر اس کے بعد طبیعت اداس رہتی ہے
(سریندر شجر)
فکر و احساس کی خوشبوؤں سے زندہ ہیں
دل میں جلتے ہوئے شعلوں کے لیے زندہ ہیں
(شفیق عابدی)
چھا گئی ساری فضا پر یہ ستم گر بن کر
وہ جیے گا جو رہے گا یہاں خنجر بن کر
جب لبوں پر آگیا اس کی جفاؤں کا گلہ
اس نے برجستہ اسے میرا مقدر کہہ دیا
(قاری فضل الرحمن انجم، ہاپوڑ)
رشتوں میں روگ پھیلا ہے سرطان کی طرح
گھر کے ہی لوگ ملتے ہیں انجان کی طرح
بستی میں چند لوگ سلیقے کے رہ گئے
گلشن سمٹ کر ہوگیا گلدان کی طرح
قبضے میں لیے بیٹھا رہا سارا سمندر
کنجوس نے ایک بوند بھی خیرات نہیں کی
(شفیق بجنوری شفق)
دوست اردو کی ہوں ہندی کی نگہبان ہوں میں
گیت اور غزلوں کی کھوئی ہوئی پہچان ہوں میں
اپنے دل میں مجھے تھوڑی سی جگہ دے دیجیے
آپ کے شہر میں دو پل کی ہی مہمان ہوں میں
(شبانہ شبنم اجین، مدھیہ پردیش)
کوئی کب جان کے سرگرم سفر ہوتا ہے
گھر تو جیسا بھی ہو ہر حال میں گھر ہوتا ہے
مرحلے عشق کے سب نیٹ پر طے ہوتے ہیں
اب کتابوں میں کوئی پھول نہ پر ہوتا ہے
(پروفیسر فاروقی بخشی، حیدرآباد)
وہ نہیں میرا مگر اس سے محبت ہے تو ہے
یہ اگر رسم و رواجوں سے بغاوت ہے تو ہے
سچ کو میں نے سچ کہا جب کہہ دیا تو کہہ دیا
اب زمانے کی نظر میں یہ حماقت ہے تو ہے
دوست بن کر دشمنوں سا وہ ستاتا ہے مجھے
پھر بھی اس ظالم پہ مرنا اپنی فطرت ہے تو ہے
(دپتی مشرا، ممبئی)
نئی زمین بنانے میں وقت لگتا ہے
اِس آسمان تک آنے میں وقت لگتا ہے
ابھی سمیٹ نہ خود کو تو اے صدائے جنوں
کسی کسی کو جگانے میں وقت لگتا ہے
(عبیداعظم اعظمی، ممبئی)
وہ جب بساط پر مہروں کو چال دیتا ہے
تو ہار جیت کے خانے میں ڈال دیتا ہے
وہ اپنی مرضی کا مالک ہے اپنی مرضی سے
خوشی کسی کو کسی کو ملال دیتا ہے
(ذکی طارق، غازی آباد)
میں ہوں جس حال میں اے میرے صنم رہنے دے
تیغ مت دے میرے ہاتھوں میں قلم رہنے دے
میں تو شاعر ہوں مرا دل ہے بہت ہی نازک
میں پٹاخے سے ہی مر جاؤں گا بم رہنے دے
(پاپولر میرٹھی، میرٹھ)
سارے جہاں میں سب سے جو پیاری زبان ہے
وہ فخرِ ہند اردو ہماری زبان ہے
منہ سے تو بولیے ذرا محسوس ہوگا خود
واللہ کتنی خستہ کراری زبان ہے
(افضل منگلوری، اتراکھنڈ)
عشق میں مجنوں و فرہاد نہیں ہونے کے
یہ نئے لوگ ہیں برباد نہیں ہونے کے
یہ جو دعوے ہیں محبت کے ابھی ہیں جاناں
اور دو چار برس بعد نہیں ہونے کے
(نصرت مہدی، بھوپال)
ماں تو بس ماں ہوتی ہے
تیری میری کہاں ہوتی ہے
(ڈاکٹر نریندر کمار، ہریانہ)
یہ بات جانتے ہیں میرے ہمنوا سبھی
میزان حق پہ اپنا سخن تولتی ہوں میں
اب کیا ملے گی مجھ کو سزا آپ سوچیے
میرا قصور یہ ہے کہ سچ بولتی ہوں میں
(لتا حیا، ممبئی)
اس نے سیلاب کی تصویر بنا بھیجی تھی
اسی کاغذ سے مگر ناؤ بنا دی میں نے
میری نظر کا مدعا اس کے سوا کچھ بھی نہیں
اس نے کہا کیا بات ہے میں نے کہا کچھ بھی نہیں
اب کے بھی اک آندھی چلی اب کے بھی سب کچھ اڑگیا
اب کے بھی سب باتیں ہوئیں لیکن ہوا کچھ بھی نہیں
(پروفیسر شہپر رسول، دہلی)
تاریخِ وطن حسن وفا ہے اردو
ہر ذرے پہ بھارت کے فدا ہے اردو
آزادی کی تحریک پہ ڈالو تو نظر
کھل جائے گا یہ راز کہ کیا ہے اردو
(گلزار دہلوی، نوئیڈا)
زمیں تو جیسی ہے ویسی ہی رہتی ہے لیکن
زمین بانٹنے والے بدلتے رہتے ہیں
میں اک ندی کی طرح بہہ رہا ہوں صدیوں سے
اگر ٹھہر گیا ہوتا تو جھیل ہوجاتا
آسماں اتنی بلندی پہ جو اتراتا ہے
بھول جاتا ہے زمیں سے ہی نظر آتا ہے
ضروری ہے کہ تہمت ہی لگاؤ بے وفائی کی
محبت آزمانے کے طریقے اور بھی تو ہیں
(وسیم بریلوی)
تم کو اپنا ہم سفر جب کہہ دیا تو کہہ دیا
اب نہیں دنیا کا ڈر جب کہہ دیا تو کہہ دیا
دل کی ویرانی کا سارا حال ان کے روبرو
ہو نہ ہو ان پر اثر جب کہہ دیا تو کہہ دیا
(رعنا تبسم،ممبئی، صدرمشاعرہ)

SAM_7968 SAM_7954

About ڈاکٹر محمد راغب دیشمکھ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

Scroll To Top
error: Content is protected !!
Visit Us On TwitterVisit Us On Facebook