فروغ تعلیم اور اردو کو ٹیکنالوجی سے جوڑنے میں اہم خدمات
از: سعدیہ سلیم شمسی
(ریسرچ اسکالر عثمانیہ یونیورسٹی و لیکچرر اردو سینٹ جانس کالج آگرہ)
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انساں نکلتے ہیں
میرتقی میر نے یہ شعر ہر زمانے میں اس دنیا میں پیدا ہونے والی چند نابغہ روزگار شخصیات کے بارے میں کہاتھا۔ یہ وہ شخصیات ہوتی ہیں جن کے علم و فضل اور کارناموں سے دنیا فیضیاب ہوتی ہے۔یہ دنیا کا قانون ہے کہ جب کوئی نابغہ روزگار شخصیت دنیا سے گذر جاتی ہے تو اس کے خلا کو کوئی دوسری شخصیت پر کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ نئی نسل پرانی نسلوں کی وراثت کو آگے بڑھاتی ہے۔آج بھی ہمارے سماج اور معاشرے میں ایسے نوجوان ہیں جن کی علمی قابلیت اور ان کے کارنامے اس قابل ہیں کہ وہ اپنے ورثا کے کارناموں کو آگے بڑھاسکیں۔میر کے مذکور ہ بالا شعر کے حوالے سے قارئین کو ایک ایسی شخصیت سے متعارف کرانے کا موقع مل رہا ہے جو دینی مدرسے کے فارغ ہیں ۔ حفظ قرآن کی سعادت حاصل کی۔ لیکن انہوں نے دنیاوی تعلیم کے اعلی مدارج طے کئے اردو میں ڈاکٹر یٹ کی ڈگری حاصل کی۔زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے پبلک سروس کمیشن کا امتحان کامیاب کیا۔جونیر لیکچرر اردو کی جائیداد پر منتخب ہوئے۔اور بعد ترقی اب اسسٹنٹ پروفیسر اردو اور این ٹی آر ڈگری کالج محبوب نگر کے وائس پرنسپل ہیں۔ تعلیم کو عام کرنا اور ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے اردو زبان کو فروغ دینا ان کے اہم کارنامے ہیں اس کے علاوہ زندگی میں انہوں نے بہت سے کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں۔ ان کے مفصل حالات زندگی پیش ہیں اور امید ہے کہ اردو میڈیم سے پہلی جماعت سے پی ایچ ڈی تک تعلیم حاصل کرنے اورگزیٹڈ عہدے پر فائز ہونے والی اس شخصیت کے حالات زندگی ضرور دوسرے طالب علموں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوں گے۔
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی 13دسمبر 1969 ءکوتلنگانہ کے ضلع نظام آباد کے ایک متوسط علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا اسماعیل فاروقی اور نانا سید داؤد رحمٰن مرحوم نظام آباد کی معروف شخصیات تھیں۔ان کے والد محمد ایوب فاروقی صابر ایمپلائمنٹ آفیسر کے عہدے پر فائز رہے۔ وہ ایک اچھے سنجیدہ شاعر اور ادیب تھے۔ ان کا شعری مجموعہ” آخر شب کے ہمنشین“ادبی حلقوں میں کافی مقبول ہوا۔ان کے بڑے بھائی ڈاکٹر محمد احسن فاروقی پرنسپل نظامیہ طبی کالج حیدرآباد اور ایڈیشنل ڈائرکٹر محکمہ آیوش حکومت تلنگانہ ہیں۔ جو ساری دنیا میں حجامہ طریقہ علاج کو فروغ دینے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ان کے چاچاﺅں میں محمد اصغر فاروقی‘محمد اظہر فاروقی‘ محمدامجد فاروقی اور محمد انیس فاروقی سبھی نے مختلف شعبہ ہائے حیات میں نمایاں کاکردگی انجام دی ہے اور انہیں علمی ماحول حاصل ہوا۔محمد اسلم فاروقی کی ابتدائی تعلیم نظام آباد کے مشہور اردو میڈیم اسکولوں آغا خان (گولڈن جوبلی) اسکول اور قلعہ گورنمنٹ ہائی اسکول میں ہوئی۔ 1985 ء میں انہوں نے میٹرک کا امتحان درجہ اول میں کامیاب کیا۔اور ضلع نظام آباد میں سر فہرست رہے جس پر وہاں کی انجمنوں نے انہیں ایوارڈ دیا۔آغا خان اسکول کے ان کے اساتذہ میں جناب رشیدصاحب‘جناب مظہر فاروقی صاحب ‘جناب یعقوب صاحب ‘جناب جبار صاحب‘جناب ماجد صاحب‘جناب فہیم صاحب‘میمونہ ٹیچر‘حبیبہ ٹیچر‘نکہت ٹیچر اور اقبال ٹیچر شامل تھے۔جب کہ ان کے ہائی اسکول کے اساتذہ میں جناب قادر صاحب‘جناب نجم الدین صاحب‘جناب معز صاحب‘جناب غفار صاحب‘جناب افتخار صاحب اور محترمہ شمیم سلطانہ صاحبہ شامل تھیں۔محمد اسلم فاروقی نے نظام آباد کے مشہور عالم دین حافظ عرفان احمد مرحوم کے قائم کردہ مدرسہ حفاظ سے حفظ قران کی تعلیم کا آغاز کیا۔اور پھر اعلی تعلیم کی غرض سے حیدر آباد منتقل ہوگئے۔ جہاں انہوں نے حیدرآباد کے مشہور عالم دین اور بزرگ شخصیت مولانا جمال الرحمٰن مفتاحی کے زیر نگرانی مدرسہ روضة العلوم ٹولی چوکی سے حفظ قرآن کی تکمیل کی۔ اپنے استاد کے ساتھ شمالی ہند کے دینی مدارس کا دورہ کیا۔ اور مظاہر العلوم سہارنپور‘دارالعلوم دیو بند اور دیگر مدارس کا دورہ کیا۔ اس دوران دور قران کے لئے وہ کچھ عرصہ حضرت شاہ ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم کے شہر ہ آفاق دینی مدرسے اشرف المدارس ہردوئی ضلع یو پی میں بھی رہے اور وہاں تجوید قران کی تعلیم حاصل کی۔ اس موقع پر انہیں حضرت شاہ ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم کی علمی مجالس سے استفادے کا موقع بھی ملا۔حیدر آباد واپسی کے بعد اپنے والد کے مشورے پر کہ دینی مدرسے کے طالب علم کو دنیاوی علوم بھی حاصل کرنے چاہئیں‘ انٹر میڈیٹ کا امتحان کامیاب کیا۔ اور اورینٹل ایوننگ کالج وجے نگر کالونی سے بی اے کامیاب کیا۔جہاں ہاشم حسن سعید‘عزیز ابرار‘ڈاکٹرفاطمہ‘سعیدہ بیگم وغیرہ ان کے اساتذہ تھے۔ اس دوران یونیورسٹی آف حیدر آباد کے ادبی مقابلوں میں انہوں نے حصہ لیا اور مزاحیہ مضمون نویسی مقابلے میں انعام اول حاصل کیا۔ یونیورسٹی کے اساتذہ سے متاثر ہوکر اسی یونیورسٹی سے اعلی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ بی ایڈ کے انٹرنس میں اچھا رینک آنے کے باوجود ایم اے کرنے کا فیصلہ کیا۔ عثمانیہ اور حیدر آباد یونیورسٹی کے ایم اے اردو کے انٹرنس امتحانات لکھے۔ اور دونوں میں سر فہرست رہے۔ تاہم یونیورسٹی آف حیدر آباد سے 1992 ء میں ایم اے اردو کیا۔ جماعت میں سر فہرست رہنے پر انہیں پی جی گو لڈ میڈل مسٹر کرشن کانت کے ہاتھوں عطا کیا گیا۔ امریکی ادارہ سی سی آ ئی ایم کے ایک تحریری مقابلے میں انعام اول حاصل کیا۔ جس پر انہیں 300امریکی ڈالر انعام میں ملے۔ اسی دوران محمد اسلم فاروقی اخبارات میں مضامین لکھنے لگے تھے اور آل انڈیا ریڈیو حیدرآباد کے یوا وانی پروگراموں میں حصہ لینے لگے تھے۔یونیورسٹی میں ان کے اساتذہ میں پروفیسر ثمینہ شوکت‘پروفیسر سیدہ جعفر‘پروفیسر مجاور حسین رضوی‘پروفیسر محمد انور الدین‘ ڈاکٹر رحمت یوسف زئی‘ڈاکٹر حبیب نثار اور دیگر اساتذہ شامل رہے۔
محمد اسلم فاروقی نے نامور محقق پروفیسر محمد انور الدین کے زیر نگرانی ”عزیز احمد کی ناول نگاری کا تنقیدی جائزہ“ موضوع پر ایم فل اور ”حبیب حیدرآبادی فن اور شخصیت“ موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری امتیازی نشانات سے حاصل کی۔ یونیورسٹی کانوکیشن کے موقع پر انہو ں نے اس وقت کے وزیر فینانس مسٹر پی چدمبرم کی موجودگی میں سابق چیف جسٹس آف انڈیا مسٹر وینکٹ چلیا کے ہاتھوں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے لییکچرر شپ کے لیے لازمی امتحانات نیٹ کو یوجی سی اور پبلک سروس کمیشن اے پی سے کامیاب کیا۔ حیدرآباد کے خانگی اسکولوں لیڈنگ ہائی اسکول گولکنڈہ اور مکہ ہائی اسکول ٹولی چوکی میں عارضی ملازمت کی ۔1996 ء میں ان کی شادی ہوئی ان کے خسر جناب سید اکرام علی صاحب اڈمنسٹریٹیو آفیسر موظف حیدر آباد میں دعوتی کام کے ذمے دار ہیں۔ 1996-97 کے دوران کچھ عرصہ ہمارا عوام اور روزنامہ سیاست کے سب ایڈیٹر رہے ۔جہاں ان کی قلمی صلاحیت میں نکھار پیدا ہوا۔ روزنامہ سیاست میں انہوں نے نامور صحافیوں جبار صدیقی‘شاہد عظیم‘معراج مرز اور خالد قادری کے زیر نگرانی کام کیا اور صحافت میں محارت حاصل کی۔انہوں نے غیر مقامی امیدوار کے طور پر اردوپنڈت امتحان کامیاب کیا جس کی بنیاد پر ان کا تقرر گولکنڈہ ہائی اسکول میں1997میںہوا۔ گیارہ ماہ ملازمت کے بعد جونیر لیکچرر کے ریاستی پبلک سروس کمیشن امتحان میں کامیابی پر20اگسٹ 1998 کو ان کا تقرر بہ حیثیت جونیر لیکچرر اردو گورنمنٹ جونیر کالج ناگرکرنول پر ہوا۔ جہاں انہوں نے 6سال خدمات انجام دیں ۔ وہاں دوران قیام انہوں نے فروغ اردو اور فروغ تعلیم کے لئے کام کیا۔روزنامہ سیاست کے اردو امتحانوں کے انعقاد اور پرچوں کی جانچ وغیرہ کامو ں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ ناگر کرنول میں طلباءکا ایک ایسا گروپ تیار کیا جنہوں نے مختلف مضامین میں پوسٹ گرائجویشن تک تعلیم حاصل کی اور یہ طلباءآج مختلف کالجوں میں لکچرر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کو بہتر تعلیمی نتائج حاصل کرنے پر بورڈ آف انٹر میڈیٹ ایجوکیشن حیدر آباد نے بیسٹ لکچرر کا ایوارڈ دیا۔ ناگر کرنول میں قیام کے دوران ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے روز نامہ سیاست میں مختلف موضوعات پر دینی ‘معلوماتی ‘علمی اور سائنسی موضوعات پر مضامین لکھے۔ ان کے یہ مضامین بعد میں کتابی شکل میں ” قوس قزح“ کے نام سے شائع ہوئے۔ اس کتاب کی اشاعت پر اردو اکیڈیمی آندھرا پردیش نے رقمی تعاون کیا اور بعد میں کتاب کو ایوارڈ کے لئے بھی منتخب کیا۔
اردو کی ایک نئی نسل کی تیاری کے بعد ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کا تبادلہ سنگاریڈی ضلع میدک ہوا۔وہاں دو سال ملازمت کے بعد 2006 ء میں اپنی ملازمت کے آٹھ سال کی تکمیل پر ہی ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کو ڈگری کالج پر اسسٹنٹ پروفیسر اردو کے عہدے پر ترقی ملی۔ اور ان کا تبادلہ گورنمنٹ ڈگری کالج ظہیر آباد پر ہوا۔ وہاں ان کی تنظیمی صلاحتیوں کو دیکھتے ہوئے انہیں کالج کا اکیڈیمک کو آرڈینیٹر مقرر کیا گیا۔ وہ عثمانیہ یونیورسٹی کے بورڈ آف اسٹڈیز کے رکن نامزد کئے گئے۔ اور بہ حیثیت چیف سپرنٹنڈنٹ انہوں نے ڈگری سالانہ امتحانات کی نگرانی کی۔ ظہیر آباد میں طالب علموں کا ایک وسیع حلقہ تیار کیا۔ان کے ایک شاگرد محمد محبوب اردو کے مشہور مضمون نگار ہیں جن کے مضامین روزنامہ منصف کے ادارتی صفحہ پر پابندی سے شائع ہوتے ہیں۔ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے ظہیر آباد کے طلباءکو مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کا دورہ کرایا اور کئی طلباءکامرس اور دیگر مضامین میں پوسٹ گرائجویشن کرنے کے بعد اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ وہ گورنمنٹ ڈگری کالج ظہیر آباد پر 2005ءتا2012فائز رہے۔ سرکاری ملازمت میں ملازمین کے تبادلے ہوتے رہتے ہیں۔ چنانچہ جولائی 2012ءمیں ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کا تبادلہ گری راج گورنمنٹ کالج نظام آباد ہوا۔ جہاں انہوں نے2018ءتک صدر شعبہ اردو کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اپنے وطن نظام آباد میں انہوں نے فروغ اردو کی کافی خدمات انجام دیں۔ نوجوان ریسرچ اسکالرز کی رہبری کے لیے اردو اسکالرس اسوسی ایشن کا قیام عمل میں لایا۔ جس کی سرپرستی کرتے ہوئے اس وقت کے تلنگانہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر اکبر علی خان نے اس اسوسی ایشن کے لیے کتابوں کی خریداری کے لیے 10ہزار وپئے کا عطیہ دیا۔ اس اسوی ایشن نے نظام میں کئی یادگار ماہانہ ادبی اجلاس مقرر کئے۔ اور نوجوان ریسرچ اسکالرز کی رہنمائی کی۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے گری راج کالج نظام آباد میں پہلی مرتبہ ایک یادگار قومی اردو سمینار” اکیسویں صدی اردو ادب چیلنجز اور ان کاحل“ منعقد کیا۔ دوروزہ سمینار میں پروفیسر محمد انور الدین‘ڈاکٹر محمد نسیم الدین فریس‘ ڈاکٹر مظفر شہ میری‘ڈاکٹر مجید بیدار‘ ڈاکٹر فضل اللہ مکرم اور دیگر اسکالرس نے شرکت کی۔ اس سمینار کے موقع پر ایک مشاعرہ منعقد کیا گیا جس میں ڈاکٹر محسن جلگانوی کے علاوہ نظام آباد کے نامور شعرا نے کلام سنایا۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے تعاون سے انہوں نے2014ءمیں دوسرا قومی اردو سمینار بہ عنوان” اردو ادب تہذیبی قدریں ماضی حال اور مستقبل “ منعقد کیا۔جس میں پروفیسر خالد سعید‘ ڈاکٹر فاضل حسین پرویز‘ ڈاکٹر معید جاوید اور دیگر اسکالرز نے شرکت کی۔ اس سمینار کی خاص بات یہ رہی کہ ماہر اقبالیات اور فیض ڈاکٹر تقی عابدی نے ذریعے اسکائپ ویڈیو کالنگ کناڈا سے براہ راست سمینار کے شرکاءسے خطاب کیا۔ اردو میں اس طرح کے آن لائن لیکچرز منعقد کرنے کی ابتداءڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے کی۔اس آن لائن لیکچر کے کامیاب تجربے کے بعد ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے محبوب نگر کے ایم وی ایس ڈگری کالج پر براہ راست لیکچر دیا۔ محترمہ عذرا بانو نے علی گڑھ سے لیکچر دیا۔ ڈاکٹر بی بی رضا خاتون نے حیدرآباد سے اور سعدیہ سلیم نے آگرہ سے اسی سہولت کو استعمال کرتے ہوئے آن لائن لیکچر دئیے ۔ مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کے اردو اساتذہ ریفریشر کورس میں ڈاکٹر محمد علی اثر صاحب کے لیکچر کے لیے ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے تکنیکی معلومات فراہم کیں۔ اس طرح اردو اساتذہ کو انہوں نے دنیا کے کسی بھی حصے سے آن لائن لیکچرز کے لیے راہ دکھائی۔
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے گری راج کالج کے دونوں قومی سمیناروں میں کنوینر کے فرائض انجام دئے اور سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر ان سمیناروں کی روداد کو بھرپور طریقے سے پیش کی۔ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے اردو ادب سے تو تعلیم حاصل کی ۔لیکن انہیںانگریزی زبان پر بھی کافی عبور ہے۔ ان کی اسی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے کالج کے پرنسپل پروفیسر لمبا گوڑ نے انہیں گری راج کالج کے شعبہ انگریزی کی صدارت سونپی۔ جسے انہوں نے بخوبی انجام دیا اور اپنے دور صدارت میں انہوں نے کالج میں تیسرا قومی سمینار انگریزی میں ”انگریزی ادب کے فروغ میں ہندوستانی ادیبوں کا حصہ2015۔منعقد کیا۔ وہ اس کامیاب سمینار کے کنوینر رہے۔ اس سمینار کے مہمان خصوصی تلنگانہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر مسٹر سی پارتھا سارتھی آئی اے ایس تھے۔ اس سمینار کے کامیاب انعقاد پر مختلف جامعات کے اساتذہ نے ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کو مبارکباد پیش کی۔ ڈاکٹر محمداسلم فاروقی کے زیر نگرانی گری راج کالج میں منعقد ہونے والے تینوں سمیناروں میں پڑھے گئے مقالوں پر مشتمل سوونیر کے انہوں نے ترتیب دے کر شائع کیا اور انہیں انٹرنیٹ سے دنیا بھر کے قارئین کے ذوق کے لئے پیش کیا۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے گری راج کالج میں ضامن روزگار موضوع ”پرنٹ و الیکٹرنک میڈیا تعارف“ پر ایک روزہ ورکشاپ۔2015منعقد کیا۔ اس ورکشاپ میں ای ٹی وی نیوز اینکر سید احمد جیلانی‘ نامور صحافی مصطفی علی سروری ‘ڈاکٹر فضل اللہ مکرم اور دیگر نے شرکت کی۔ اور طلباءکوپرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں روزگار کے مواقع کے بارے میں آگاہ کیا۔ انہوں نے ایک اور ورکشاپ ”ترجمہ نگاری کا فن“ کے عنوان سے 2017ءمیں منعقد کیا۔جس میں مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کے شعبہ ترجمہ کے اساتذہ ڈاکٹر فہیم الدین احمد اور ڈاکٹر جنید ذاکر اور دیگر نے شرکت کی۔ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے سمیناروں کی نظامت کے تجربات سے دوسروں کو مستفید کرتے ہوئے تلنگانہ یونیورسٹی ‘بودھن‘ محبوب نگر‘ظہیر آباد اور حیدرآباد کے ڈگری کالجوں میں قومی اردو سمیناروں کے لئے مکمل رہبری کی جس سے دیگر کالجوں میں بھی کئی سمینار منعقد ہوئے۔ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی گری راج کالج میں آئی کیو اے سی کوآرڈینیٹر رہے اور ان کے زیر نگرانی کالج کا تیسری مرتبہ نیاک انسپکشن ہوا۔ جس میں کالج کو بی گریڈ حاصل ہوا تاہم معائنہ کاروں نے ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کی ہمہ جہت تعلیمی‘تدریسی‘تحقیقی و اختراعی خدمات کی بھر پور ستائش کی۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے اس کالج میں قومی یوم مادری زبان کے موقع پر فروغ اردو زبان اور اردو رسم الخط کو عام کرنے کے ایک انوکھے پروگرام”فون میں اردو گھر گھر میں اردو“ کا آغاز کیا۔ اور اپنے کالج کے طلباءکے ساتھ اسکولوں کالجوں اور بازار میں موجود لوگوں کے فون میں اردو رسم الخط کی بورڈ شامل کرتے ہوئے لوگوں کو اردو رسم الخط استعمال کرنے کی کامیاب ترغیب دی۔ انہوں نے جب اس پروگرام کی تشہیر سوشل میڈیا پر کی تو دنیا بھر سے انہیں مبارکبادی کے پیغامات ملے اور دیگر علاقوں نے بھی لوگوں نے اس پروگرام کو شروع کیا۔انہوں نے کالج میں ایک اور اختراعی پروگرام”روز ایک لفظ سیکھئے چار زبانوں میں“ بورڈ کو شروع کیا۔ جس میں انگریزی کے ایک لفظ کو ہندی ‘تلگو اور اردو میں لکھ کر اس کا تلفظ انگریزی میںپیش کیا جاتا ہے جس سے اردو طلباءکو دیگر زبانیں اور دیگر زبانوں والوں کو اردو سیکھنے میں مددملی۔ ان کی کاوش سے گری راج کالج کے اردو نصاب میں نظام آباد کے اردو ادیبوں اور شعرا کو نمائیندگی دی گئی۔ کالج میں انہوں نے جمیل نظام آبادی‘ڈاکٹر محمد ناظم علی‘ڈاکٹر حمیرہ سعید‘ ڈاکٹر عبدالرحمٰن‘جناب عبدالعزیز کے لیکچر منعقد کئے۔ بیلن نظام آبادی نے ایک شاعر سے ملئے پروگرام اور شیخ احمد ضیاءنے ایک ادیب سے ملئے پروگرام میں شرکت کی۔ وہ اردو کے پہلے لیکچرر ہیں جنہیں کالج کی جانب سے عصری لیپ ٹاپ دیاگیا۔نظام آبا دمیں قیام کے دوران وہ مولانا آزاد اردو یونیورسٹی اور امبیڈکر یونیورسٹی کے کونسلر رہے۔ اسی دوران عثمانیہ یونیورسٹی کے اورینٹل شعبے میں انہیں پی ایچ ڈی گائیڈ شپ دی گئی اور ان کے زیر نگرانی چھ طلباءاردو میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔
گری راج کالج میں چھ سال خدمات انجام دینے کے بعد ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کا تبادلہ این ٹی آر ڈگری کالج برائے اناث محبوب نگر ہوا۔ جہاں وہ جولائی2018ءسے بہ حیثیت صدر شعبہ اردو ‘وائس پرنسپل اور آئی کیو اے سی کو آرڈینٹر کے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس دوران ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آئیں۔ ان کی تحقیقی تصانیف میں پہلی تصنیف ”قوس قزح۔2005“ دوسری تصنیف”مضامین نو 2012ئ“۔ تیسری تصنیف”سائینس نامہ 2013ئ“ چوتھی تصنیف”عزیز احمد کی ناول نگاری 2014ئ“۔پانچویں تصنیف”برطانیہ میں اردو کا سپاہی حبیب حیدرآبادی۔2016“چھٹی تصنیف”دریچے مضامین کا مجموعہ“2017۔ساتویں تصنیف”کہکشاں مضامین کا مجموعہ“2018ہے۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کی ساری تصانیف پر اردو اکیڈیمی اے پی و تلنگانہ اسٹیٹ نے انعام دیا۔ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی انٹر سے لے کر پی ایچ ڈی تک ریاست اور ملک بھر کے سبھی طلباءکی تعلیمی رہنمائی کرتے ہیں۔اور انہیں مختلف امتحانات کے لیے تعلیمی مواد فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے طلباءکی سہولت کے لیے1) شرح گلزار ادب برائے انٹر سال اول۔2) شرح گلرزار ادب برائے انٹر سال دوم3)شرح ڈگری اردو سال اول 4)شرح ڈگری اردو سال دوم‘5)اخلاقیات اور انسانی قدریں۔انٹر سال اول(ترجمہ)6) جنسی حساسیت(ترجمہ) ڈگری سال اول- 7) قدری تعلیم (ترجمہ) ڈگری سال اول8) ماحولیاتی سائنس ڈگری سال دوم 9) سائنس اور انسانی تہذیب ڈگری سال سوم کتابیں اور تعلیمی مواد طلباءکو فراہم کیا۔ ان کا یہ مواد سبھی طلباءکے لیے آن لائن دستیاب ہے۔ جس سے اے پی اور تلنگانہ کے اساتذہ اور طلباءدونوں مستفید ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کی تحقیقی کتابیں سائنس نامہ‘عزیز احمد کی ناول نگاری اور برطانیہ میں اردو حبیب حیدرآبادی انٹرنیشنل اردو ویب سائٹ ریختہ اور بزم اردو پر دستیاب ہیں۔
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی ایک اچھے مضمون نگار ہیں ان کے مضامین اردو دنیا‘ قومی زبان ‘سیاست‘منصف‘ رہنمائے دکن‘ اعتماد‘ راشٹریہ سہارا‘مضامین ڈاٹ کام‘مائی نظام آباد ویب سائٹ‘ گونج‘ تمہید‘ آندھرا پردیش‘جنگ پاکستان‘ اسٹار نیوز دہلی‘ ہندوستان ٹائمز اردو‘ متاع کانپور‘گواہ حیدرآباد‘ وقار ہند‘ سیاست پندرہ روزہ اور دیگر اخبارات و رسائل اور انٹرنیٹ ویب سائٹس پر مسلسل شائع ہوتے ہیں۔ روزنامہ منصف کے ادارتی صفحہ پر انہوں نے کئی مفید معلوماتی مضامین لکھے۔ جو انٹر نیٹ پر دستیاب ہیں۔ نظام آباد سے جاری ہونے والے پہلے آن لائن اردو اخبار ” آج کا تلنگانہ“ کے لیے ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے سو سے زائد مضامین لکھے جو آن لائن شائع ہوئے۔ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اوپن یونیورسٹی سمسٹر چہارم مواصلات اور اردو کتاب کے ایڈیٹر رہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے امبیڈکر یونیورسٹی سال اول کی کتابوں میں 6 اسباق تحریر کئے۔ وہ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ تلنگانہ اسٹیٹ ماڈرن لینگویج اور زبان دوم سال اول اور سال دوم اردو نصابی کتابوں کی تیاری کمیٹی کے رکن ہیں۔وہ ایک اچھے مترجم ہیں جن کی بناءبورڈ آف انٹر میڈیٹ نے سماجی علوم کی کتابوں اور ماحولیاتی سائنس کتاب کے ترجمے کے دوران ان کی خدمات حاصل کیں اور کئی اسباق کا ترجمہ کرایا۔ اسی طرح امبیڈکر اوپن یونیورسٹی کے لیے بھی انہوں نے سماجی علوم کتابوں کے ترجمے کئے۔ اپنے ترجمے کی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے انہوں نے انگریزی کی شاہکار کہانیوں دو گز زمین لیو ٹالسٹائے اور کابلی والا رابندر ناتھ ٹیگو ر کا اردو میں ترجمہ کیا۔ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے پروفیسر شوکت حیات کے زیر نگرانی ایفلو ای ایم آرسی کے ایک یوجی سی پراجیکٹ کے تحت یوجی سی ڈگری ویڈیو اسباق کے تحت تین ویڈیو اسباق ن م راشد‘ اخترالایمان اور جگر کی شاعری کے بارے میں پیش کئے ۔ ان کے یہ ویڈیو اسباق یوٹیوب پر دستیاب ہیں۔ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے سمیناروں اور مختلف مواقع پر جو لیکچر دئے ان کے ویڈیو یوٹیوب چینل پر پیش کئے اس طرح ان کے چینل پر 200سے زائد ویڈیو موجود ہیں۔ انہوں نے اردو کو ٹیکنالوجی سے جوڑنے کے لیے اپنے طلباءکی مدد سے ڈگری نصاب کے تدریسی ویڈیو تیار کئے۔ اور یوٹیوب پر پیش کیا۔ ان کے دو ویڈیوز غزل کی تعریف اور نظم کی تعریف کو دنیا بھر سے ایک لاکھ سے زائد ناظرین نے مشاہدہ کیا۔ اور یوٹیوب پر ان کے دوہزار سے زائد سبسکرائبرس ہیں۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی سوشل میڈیا سے دنیا بھر سے رابطے میں رہتے ہیں۔ انہوں نے طلباءکی سہولت کے لیے شمع فرزا ں فیس بک پیج تیار کیا۔ یوجی سی نیٹ امتحان کی تیاری کے ایک گروپ میں وہ طلباءکو ای میل کے ذریعے مفت نیٹ اردو کے معروضی سول جواب کی کتابیں فراہم کرتے ہیں۔بزم اردو کے نام سے ان کا ایک فیس بک گروپ ہے جس پر دنیا بھر کے لوگ اردو سرگرمیوں سے مستفید ہوتے ہیں۔ تعلیمی ویڈیو پیج سے وہ اردو کے اہم موضوعات پر ویڈیوز پیش کرتے ہیں جس سے دنیا بھر کے طلباءمستفید ہوتے ہیں۔ وہ اہم تقاریب کو اپنے فیس بک پیچ سے براہ راست پیش کرتے ہیں اور ٹیکنالوجی کا اردو کے فروغ کے لیے بھر پور استفادہ کرتے ہیں۔اردو کو ٹیکنالوجی کے جوڑنے کی جانب ایک قدم کے طور پر گوگل کی سہولت بلاگ کو استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے اپنے بلاگ کے علاوہ گری راج کالج اور این ٹی آر ڈگری کالج کے بلاگ تیار کئے اور شعبہ اردو کی سرگرمیوں کو ان پر پیش کیا۔ دریچے اور تبصرے کے نام سے ان کے بلاگ ہیں جن پر وہ مضامین اور تبصرے پیش کرتے ہیں۔ ”حج کا سفر“ کے نام سے انہوں نے حاجیوں کی رہبری کے لیے ایک بلاگ تیار کیا جس میں سفر حج سے متعلق کتابیں‘ویڈیوز‘تصاویراور اہم معلومات فراہم کی گئی ہیں۔اس بلاگ کا اب تک15000سے زائد ناظرین نے مشاہدہ کیا ہے۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے اردو کے دیگر ادیبوں اور شعرا کو بلاگ کی سہولت سے مستفید کرایا ہے۔ چنانچہ مرزا غالب اکیڈیمی حیدرآباد اور نامور ادیبہ نفیسہ خان کے بلاگ انہوں نے تیار کئے۔ اور گوگل میں اردو کے بیش قیمت مواد کو شامل کرنے میں کارہائے نمایاں انجام دیا۔ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی رکن بورڈ آف اسٹڈیز عثمانیہ یونیورسٹی‘ رکن بورڈ آف اسٹڈیز تلنگانہ یونیورسٹی‘ رکن بورڈ آف اسٹڈیز ایم وی ایس کالج محبوب نگر اوراین جی کالج نلگنڈہ کے رکن کے علاوہ صدر نشین بورڈ آف اسٹڈیز اردو اور انگریزی گری راج کالج نظام آباد رہے۔وہ مختلف جامعات کے ممتحن ہیں اورشاتا واہانا یونیورسٹی کریم نگر‘تلنگانہ یونیورسٹی نظام آباد‘ یوگی ویمنا یونیورسٹی کڑپہ اور امبیڈکر یونیورسٹی اورمولانا آزاد اردو یونیورسٹی شعبہ جرنلزم کے ممتحن ہیں۔ جموں و کشمیر پبلک سروس کمیشن امتحانات کا انہوں نے بہ حیثیت آن لائن کام کیا۔ نظام آباد میں انہوں نے روشنی ٹی وی پر لائیو فون ان پروگرام مسابقتی امتحان کی تیاری کیسے کریں۔ سوشیل میڈیا کے اثرات اور امبیڈکر یونیورسٹی کے پروگرام دوردرشن میں شرکت کی۔ وہ آل انڈیا ریڈیو حیدرآباد پر یواوانی پروگرام‘ اسپورٹس راونڈ اپ اور حرف تابندہ کی پیشکشی میں بھی حصہ لیتے رہے۔ انہوں نے مختلف کالجوں میں توسیعی لیکچر دئیے عادل آباد‘ محبوب نگر اور نظام آباد کے کالجوں میںدئیے گئے ان کے لیکچرز یوٹیوب پر دستیاب ہیں۔ گوگل میں انگریزی میں aslam faroquiیا اردو میں اسلم فاروقی ٹائپ کرنے سے گوگل پر موجود ان کی ساری سرگرمیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔ انہوں نے قومی و بین الاقوامی اردو سمیناروں میں مقالے پڑھے۔تلنگانہ یونیورسٹی‘ شاتا واہانا یونیورسٹی‘ یونیورسٹی آف حیدرآباد‘ حکومت تلنگانہ سمینار اور دیگر کالجوں کے اردو سمیناروں میںانہوں نے مقالے پیش کئے۔رسالہ گونج نے ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی فن اور شخصیت خاص نمبر 2015 ءمیں شائع کیا جو جو فیس بک پر موجود ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنے والد محمد ایوب فاروقی گونج فن اور شخصیت نمبر کی اشاعت میں بھی تعاون کیا۔ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے گری راج کالج کے میگزین سورجنا اور این ٹی آر کالج کے میگزین درپن کے مدیر کے فرائض انجام دئیے اور انگریزی میں دونوں میگزین شائع کئے۔انہوں نے تلنگانہ یونیورسٹی شعبہ اردو کے اردو فیسٹیول میں جج کے فرائض’ یواترنگم مقابلوں میں جج کے فرائض انجام دئیے۔ ان کی زیر طبع تصانیف میںاردو کی منتخب نظمیں ایک مطالعہ(تنقید)2) کچھ پھول چنے میں نے ریڈیائی تقاریراور اردو کتابوں پر تبصرے شامل ہیں۔ انہوں نے اردو شعراءاور ادیبوں کی کتابوں پر جو تبصرے لکھے وہ اخبارات اور رسائل میں شائع ہوئے۔ 2008ءمیں انہیںحج کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس کے بعد وہ سنگاریڈی اور نظام آباد میں عازمین حج کی رہبری کرتے رہے ہیں۔ فیس بک پر حج کا طریقہ ویڈیوز کی پیشکشی کے ذریعے بھی وہ عازمین حج کی تربیت کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے2019ءسیرت النبی ﷺ اور پیارے نبی ﷺ کی پیاری سنتیں کتاب ترتیب دی اور طلباءمیں مفت تقسیم کی۔انہوں نے سوشل میڈیا واٹس اپ پر ”ہم لوگ“ کے نام سے گروپ ترتیب دیا۔ کالج کے طلباءکے لیے مختلف تدریسی گروپ تیار کئے اور 24X7طلباءکی رہبری کا کامیاب عملی نمونہ پیش کیا۔ چونکہ وہ اپنے طلباءسے دوستانہ ماحول میں بات کرتے ہیں اس لیے ملک بھر سے طلباءان سے رابطہ کرتے ہیں اور وہ سوشل میڈیا سے طلباءکی رہبری کرتے رہتے ہیں۔ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کو حکومت تلنگانہ کی جانب سے 5ستمبر2019کو یوم اساتذہ کے موقع پر ریاستی سطح کا بیسٹ لیکچرر ایوارڈ دیا گیا۔ اردو اکیڈیمی اور کمشنر کالجیٹ ایجوکیشن کی جانب سے انہیں بےسٹ ٹیچر ایوارڈ یا گیا۔ بزم علم و ادب حیدرآباد کی جانب سے2016ءمیں انہیں ڈپٹی چیف منسٹر تلنگانہ جناب محمود علی کے ہاتھوں ”علمبردار اردو ایوارڈ“ دیا گیا۔ اردو اکیڈیمی کے ضلعی سمینار کے موقع پر محبوب نگر میں انہیں ایوارڈ اور تہنیت پیش کی گئی۔وہ قمر الدین صابری اردو فاﺅنڈیشن حیدرآباد کی ماہانہ ادبی سرگرمیوں سے وابستہ ہیں۔اس کے علاوہ دیگر ادبی انجمنوں کے پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں۔وہ تلنگانہ میں فروغ اردو کے لیے نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کا مطمع نظر یہی ہے کہ لوگوں کی مدد کرو اللہ آپ کی مدد کرے گا۔تعلیم کو عام کرنا۔ دین کی اشاعت‘ اردو زبان و ادب کا فروغ اورملی خدمات میں وہ اپنے آپ کو مصروف رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جس طرح دولت کی زکوة روپیہ خرچ کرنا ہے اسی طرح علم کی زکوة اسے مفت عام کرنا ہے۔ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کے اس علمی سفر سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں اور اہل نظام آباد کو ان پر فخر ہونا چاہئے کہ انہوں نے اپنی سرگرمیوں سے دنیا بھر میں نظام آباد کا نام روشن کیا اور دیگر طلباءکے لیے مثال پیش کی کہ کس طرح دینی مدرسے کے طالب علم رہنے کے باوجود انہوں نے دنیاوی شعبہ جات میں ترقی کی ۔
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام ترا ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں