پروفیسر ڈاکٹر صغیرافراہیم کے تعلق سے
پدم شری پروفیسرڈاکٹرقاضی عبدالستار
پروفیسر ڈاکٹر صغیرافراہیم
ڈاکٹرسیماصغیر
اسوسیٹ پروفیسر،شعبۂ اردو،
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ۲۰۲۰۰۲
سیماصغیر: صغیرصاحب کاکہناہے کہ اُن کے کہانی لکھنے کاآغازآبائی وطن انّاومیں انٹرمیڈیٹ کے دوران ہوگیاتھا۔ ۱۹۷۵ء میں جب ان کا علی گڑھ میں بی۔اے (Hons)میں داخلہ ہواتو انھوںنے آپ کی سرپرستی اوررہنمائی میں اس جانب توجہ دی ۔محفلوں میں افسانہ پڑھنے اورپھرچھپوانے کا موقع ملا۔ قاضی صاحب! اس بات کوچاردہائیاں گزرچکی ہیں، اُن کی ترقیٔ درجات کے تمام مراحل آپ کے سامنے ہیں۔ آپ صغیرصاحب کے تعلق سے کچھ روشنی ڈالیں؟
قاضی عبدالستار: سیماصاحبہ آپ نے گفتگوکاآغاز بہت اچھے اندازمیں کیاہے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پہلی مرتبہ ایک ایسی انجمن کاوجود ہوایایہ کہیے جسے میں نے قائم کیا اس کانام ’راوی‘ رکھا۔ اس انجمن کامقصدیہی تھاکہ طالب علم جوافسانہ لکھتے ہیں یااُن میںافسانہ لکھنے کاشوق ہے یا شعورہے، وہ افسانے لکھیں ،وہ افسانے پڑھے جائیں اوران کی اشاعت ہو۔ ظاہرہے جب صغیرافراہیم علی گڑھ آئے اورمجھ سے ملے اور انھوںنے اپناپہلاافسانہ دکھلایا تواسی سے مجھے احساس ہواکہ یہ اُن کاپہلاافسانہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی وہ افسانہ لکھ چکے ہیں۔اُن کے شوق کو دیکھتے ہوئے میں نے ہمت افزائی کی ۔ انھوںنے ’راوی‘ میںاپناافسانہ پڑھاجوسب کوپسندآیا۔دراصل ’’راوی‘‘میں جومیرے شاگرد افسانے پڑھتے تھے ، لکھتے تھے، سناتے تھے،ان میں سے اکثرکامیں کبھی کبھی انتخاب کرتا تھا۔ یاد پڑتا ہے کہ اس انتخاب میں بھی میں نے صغیرکے افسانے کاانتخاب کیاتھا اورظاہرہے کہ میرے یہاں رعایت کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔میں نہ خوشامدپسندکرتاہوں اورنہ خوشامدکرتاہوں اوربچوں کی کیا خوشامد۔بچوں کی خوشامدکامطلب یہ ہے کہ بچوں کی غلط تعریف کرناہے۔ مجھے معلوم ہے اچھاباغبان وہ ہوتا ہے جسے یہ معلوم ہوتاہے کہ پودے کوکب پانی دیناچاہیے اوراُسے یہ بھی معلوم ہوناچاہیے کہ کم پانی اگر پودے سُکھاتاہے توزیادہ پانی پودے کوسڑاتاہے۔ یہ علم باغبان کوہوناچاہیے۔ اِس لیے میں نے اپنے طالب علموں کے سلسلے میں بہت محتاط رویہ رکھاہے اورکبھی افراط وتفریط کوجگہ نہیں دی۔ ان کے افسانے میں شروع سے دیکھتا رہاہوںبلکہ مضامین بھی ۔جب وہ ریسرچ میں آگئے تب میں نے اُن کے افسانوں کے بارے میں کہاتھاکہ اب تمہاری شہرت نقادکی حیثیت سے ہورہی ہے لہٰذا افسانوں پرکم توجہ دو۔اب جب کہ صغیرافراہیم کانقاد کی حیثیت سے مقام بن چکاہے ان کا اب افسانوی مجموعہ منظرعام پرضرور آنا چاہیے۔
سیماصغیر: صغیرصاحب نے کئی جگہ لکھاہے کہ آپ سے اُن کے والدکے تعلقات تھے ۔کیااسی قربت کی بدولت وہ آپ کواپنی کہانیاں دکھلاتے تھے یاان کے افسانوںمیں کچھ خوبیاں تھیںجن کی بدولت وہ آپ کے بے حدعزیزشاگرد تھے؟
قاضی عبدالستار: یہ صحیح ہے کہ صغیرافراہیم کے والدمحترم سے میرے خاصے مراسم تھے ۔لیکن صرف مراسم کی بناپر میں کسی کی تعریف وتنقیدسے تعلق نہیں رکھتا۔ صغیرمیں اگرصلاحیت نہ ہوتی توان کے والدسے کتنے ہی مراسم ہوتے میں اُن کی تعریف نہیں کرتا۔ ہمت افزائی نہیں کرتا۔ سکوت اختیارکرتا۔ اُن میں صلاحیت تھی اِس لیے میں نے ہمت افزائی کی اور برابرکہانی لکھنے کے لیے اکساتارہا، سنتارہااورنوک پلک بھی درست کرتارہا۔ یہ بھی صحیح ہے کہ جب میں نے مناسب سمجھا اُنھیں تنقید پرخصوصی توجہ کی تلقین کی۔
سیماصغیر: صغیرصاحب بتاتے ہیں کہ ۱۹۷۷ء میں اچانک آپ نے اردوفکشن پرایک بڑے سمینار کے انعقاد کا اعلان کیا وہ بھی شعبہ اردوسے دوراپنے بل بوتے پر،اسٹاف کلب میں۔وہ بتاتے ہیں کہ یہ دوروزہ سمینار بہت کامیاب رہا۔ ملک بھرسے آئے مہمان افسانہ نگاروں میں اقبال متین، اقبال مجید، غیاث احمدگدی، رتن سنگھ ، عابدسہیل ،انورعظیم جیسے قدآور ادیبوں کی موجودگی میں آپ کے شاگردوں نے بھی افسانے سُنائے۔ صغیرافراہیم نے’’ننگابادشاہ‘‘پڑھا جسے پسندکیاگیا۔
قاضی عبدالستار: یہ بہت اہم مسئلہ آپ نے اٹھادیا۔ ۱۹۷۷ء سے پہلے ۱۹۶۲ء میںبھی میں ایک سمینارکراچکاتھا اور وہ سمینارNRSCکے پروسٹ کیپٹن حمیدالحسن صاحب کی ہمت افزائی کی بناپر کرسکاتھا۔ لیکن وہ چھوٹاسمینار تھا۔ اس میں چند لوگ آئے تھے اورشام افسانہ برپاکی گئی تھی اورعلی گڑھ کی تاریخ میں پہلی شام افسانہ تھی اور اس کا فنکشن امیرنشاں کی ایک کوٹھی میں ہوا۔۱۹۷۷ء میں خیال آیاکہ فکشن پرایک بڑاپروگرام ہوناچاہیے۔ ادب کے حوالے سے محفلوںمیںجوکچھ ہوتاتھا تووہ صرف شاعری ہوتی تھی۔ مشاعرے ہوتے تھے اورصرف شاعری پر سمینار منعقد ہوتے تھے۔میںنے کوشش یہ کی کہ یونیورسٹی میں ادب کے حوالے سے توازن پیداہو۔ ان میں افسانہ بھی آنا چاہیے ،ناول بھی آناچاہیے،صرف شاعری ہی ادب نہیں ہے۔ شاعری ادب کابڑاحصہ ہے میں اِس کوتسلیم کرتا ہوں اوراس کاجومقام ہے اپنی جگہ مسلّم ہے۔ لیکن اِس کے معنی یہ نہیں کہ دوسری اصناف ادب کوبالکل نظرانداز کیاجائے ۔تومیں نے اس کے لیے ایک انجمن قائم کی جس کانام ’راوی‘ تھا۔ اسی کے بعد سمینارکاخیال آیاتھا اور اس میں کئی بڑے لوگ شریک ہوئے تھے جن کاابھی آپ نے نام لیا ہے۔ہم لوگوں نے چندہ کیاتھااور اس سمینارمیں سب سے زیادہ جولوگ پیش پیش تھے اُن میں صغیرافراہیم بھی تھے ۔ چندہ کے نام پربارہ سوروپئے جمع ہوئے تھے اس میں ایک ہزارروپیہ مزمل منزل کے حیات میاں کاتھا ،دوسوروپئے ہم لوگوں کے تھے۔ آج سوچ کرحیرت ہوتی ہے کہ ہم لوگوں سے صرف دوسوروپئے اکٹھاہوسکے تھے اورحیات میاں نے جب اچانک اشرف میاںسے پوچھاکہ آپ کاخرچ کتنا ہے تو بتایاگیاکہ بارہ سوروپئے کا ہے ۔انھوںنے کہاکہ جمع کتنے ہوئے تواشرف نے کہاکہ سرابھی تو کچھ بھی جمع نہیںہواہے صرف دوسوروپئے اکٹھاہوئے ہیں۔ نواب صاحب نے فوراً ایک ہزارروپیہ نکالااور ہم لوگوں کودے دیا اورہم لوگ سمینارکرانے کاانتظام کرنے لگے۔ ہماری مخالفت بھی بہت ہوئی تھی۔ ہماری زبان جوایسی ہے، میرؔکاشعرہے:
تری چال ٹیڑھی تیری بات روکھی
تجھے میرؔ جاناہے یاں کم کسو نے
جدیدیت والے ہمارے خلاف،ترقی پسندی والے ہمارے خلاف، توہم اکیلے تھے توہم کو کہیں ہال نہیں مل رہاتھا جہاں ہم سمینار کرسکیں کوئی لائونج وغیرہ نہیں۔ ثریاحسین صاحبہ جواس وقت صدرشعبہ تھیں اُن کے شوہر اظہار حسین شعبۂ ریاضی میں صدرشعبہ تھے۔ انھوںنے باقاعدہ ہماری مخالفت کی ،ہرممکن کوشش کی کہ سمینار نہ ہونے پائے ۔لیکن ہمارے شاگردوںنے بہت محنت کی جس میں صغیرافراہیم پیش پیش تھے۔بہت دھوم دھام سے وہ سمینار ہوااوراُس سمینارکابہت ذکررہاہے۔ سب سے زیادہ ذکراس سمینارکااقبال متین ،عابدسہیل، رتن سنگھ اورڈاکٹرمحمدحسن نے کیا۔واقعی وہ سمینار بہت یادگاری تھا۔ اس میں ہمارے کچھ شاگردوں نے افسانہ پیش کیاتھا۔ اس میں صغیرافراہیم کاافسانہ بہت پسندکیاگیا۔
سیماصغیر: میرے شوہرصغیرافراہیم کہتے ہیں کہ میں نے اپنی پوری زندگی میںفکشن پر اتنااچھاسمینارآج تک نہیں دیکھا جو آپ نے اُس زمانے میں کردیاتھا۔کیمپس میں گونج تھی ۔فکشن کے جتنے بھی بڑے ادیب تھے وہ سب موجودتھے اورانھوںنے طلباوطالبات کی اتنی حوصلہ افزائی کی تھی کہ جس کا تصورمحال ہے۔آخرکیوں؟
قاضی عبدالستار: یہ بات مجھ سے کئی لوگوں نے کہی ہے کہ وہ سمینار ایک طرح سے بہت یادگارتھا۔ جس کوہم بڑاسمینار کہہ سکتے ہیں اورفخرکرسکتے ہیں حالانکہ یہ بات مجھے اچھی نہیں لگتی ۔تقریباً چالیس برس ہوگئے اس سمینارکو،مجھے ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیے مگرمنھ پر بات آہی جاتی ہے ۔جب ہمارے سمینار میں لنچ ہو رہاتھا توMathmatic ڈپارٹمنٹ کے کچھ طلبانے لنچ لوٹنے کی کوشش کی توہمارے شاگردوں نے ان لوگوں کوڈانٹ ڈپٹ کر بھگادیا تھا اورہمارے مہمانوں کو جھوٹے ٹیلی گرام دیے گئے کہ سمینارملتوی ہوگیاہے لیکن خداکاشکرکسی نے بھی یقین نہیں کیا اورسب لوگ تشریف لائے اوربہت اچھا سمینار ہوا جیساصغیرافراہیم کہتے ہیں یاڈاکٹرمحمدحسن نے لکھاہے اوراقبال متین نے اُس سمینارکی پوری رودادرقم کی ہے۔ بہت یادگار اوربڑاسمینار تھا اور اس سمینار کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ اس میں ہمارے سبھی شاگردوںنے افسانے پڑھے تھے۔ ایک اورسمینار دلی میں ہواتھا وہ میرانہیں تھا ۔میرے خیال میں غالب اکیڈمی کاسمینارتھا ۔اس میں بھی ہمارے شاگردوں نے افسانے پڑھے تھے ۔ اس میں جوچھ افسانہ نگارتھے وہ سب کے سب ہمارے شاگردتھے۔
سیماصغیر: صغیرصاحب نے اپنی کتاب’’نثری داستانوں کاسفر‘‘ میں لکھاہے کہ ۱۹۸۰ء اُن کے لیے بہت خوشیاں لے کر آیاہے ۔انھیں ایم۔اے میں گولڈمیڈل ملا۔افسانہ ’’ننگابادشاہ‘‘ شائع ہوااوراُن کاوہ مضمون جو انھوں نے ہوم اسائنمنٹ کے طورپر آپ کے کلاس میں جمع کیاتھا۔ وہ ’’شاعر‘‘ممبئی میں شائع ہوا جسے بے حد پسند کیاگیا۔ اورپھرانھوںنے آپ کے حکم کے بموجب تنقیدی مضامین پربھرپورتوجہ دیـ؟
قاضی عبدالستار: میں نے یہ محسوس کیاکہ ہمارے شاگردوں میں جولوگ افسانہ لکھ رہے تھے اُن میں سب سے نمایاں نام سید محمداشرف کاتھاتومیں یہ چاہتاتھاکہ صغیربھی کسی فیلڈمیں سب سے نمایاں ہوںتومیں نے یہ سوچاتھاکہ اُن کے لیے تنقیدکامیدان افسانے سے زیادہ مناسب ہے۔ میرامطلب یہ نہیں تھاکہ وہ افسانہ نہیں لکھ سکتے یا افسانہ نہیں لکھ رہے ہیں۔ میرامطلب یہ تھاکہ صغیرتنقیدکو Prefrence دیںاورمیں اس لیے بھی چاہتا تھا کہ وہ تنقیدپربھرپورتوجہ دیں کیونکہ میرے شاگردوں میں کوئی نقاد نہیں تھا۔تومیں چاہتاتھاکہ میراکوئی شاگرد نقاد ہو اور وہ صلاحیت میں نے ان میں دیکھی اُن کے جو چھوٹے چھوٹے مضامین شائع ہورہے تھے،میں چاہتاتھا کہ وہ مقبول بھی ہوں۔ توصغیرکو میں نے اکسایا اورہرطرح سے اُن کوتنقید کی طرف توجہ دلائی اور تنقید لکھوائی اور مجھے اس بات پرخوشی ہے کہ انھوں نے بہت اچھے مضامین لکھے ہیں، ان کاسب سے اچھامضمون وہ ہے جو انھوںنے منٹوکے سلسلے میں ریوتی سرن شرما کے جواب میںلکھاہے۔ وہ میری ناچیزرائے میں سب سے اچھا مضمون ہے ۔ فکر کی گہرائی کے لحاظ سے، بصیرت افروزی کے لحاظ اورنثری لحاظ سے پڑھے جانے کے قابل ہے۔ اس مضمون کومیں نے بہت پسندکیا ۔اب توصغیر بہت اچھالکھتے ہیں اور بڑے سے بڑے مضمون کو بہت آسانی سے اداکردیتے ہیں۔اُن کوزبان پر مہارت حاصل ہوچکی ہے مجھے اُمیدہے کہ تھوڑے دنوں میں قدرت بھی حاصل ہوجائے گی۔
سیماصغیر: صغیرصاحب کی طالب علمی کے زمانے میں جوکتاب پریم چند پر’’پریم چند۔ایک نقیب‘‘ کے عنوان سے آئی اوراُس کتاب پر آپ نے جو رائے دے دی تھی ،اس کے تعلق سے صغیرصاحب آج بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ میرے لیے اِس وقت بھی سندکی حیثیت رکھتی ہے؟
قاضی عبدالستار: ہاں میں نے لکھاہے کہ ڈاکٹرصغیرافراہیم اپنے ہم عصروں اوراپنے ہم عمروں میں سب سے کم عمر صاحب تصنیف ہیں۔اِس معاملے میںبھی صغیرافراہیم میرے شاگردرشیدہیں کیوںکہ انیس برس کی عمر میں پہلاناول میرابھی چھپ چکاتھا’’پہلااورآخری خط‘‘۔’’پریم چند۔ایک نقیب‘‘ بھی ایک طالب علم کی تصنیف ہے ۔تبھی میں نے لکھاتھا ۔بالغ ہوتی ہوئی نگاہِ نقدکاپریم چندکی حضورمیں محض خراج عقیدت ہی نہیں بلکہ اردوفکشن کی تنقیدکے کینوس کووسیع اورمحترم کرنے کی مبارک کوشش ہے جس کے لیے وہ ستائش کے مستحق ہیں۔ چوتھائی صدی قبل جب صغیرافراہیم ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے ’’اردوافسانہ ترقی پسند تحریک سے قبل‘‘پر اپناکام کررہے تھے تب میںنے اُن کے مسوّدے کودیکھ کر کہاتھاکہ فکشن کے ساتھ اردوتنقیدنے وہی سلوک کیاجو کیکئی نے رام کے ساتھ کیاتھا اورمیںآج بھی اپنی رائے پرقائم ہوں اِس لیے کہ ہرچندفکشن کوموضوع تنقیدبنایاگیاسمیناروں اورکانفرنسوں میں شرکت کا جواز پیداکرنے کے لیے بھی بہت کچھ لکھاگیا۔ لیکن وہ دل سوزی اورخوںجگری جو تنقیدکوتخلیق کے قریب لے آتی ہے وہ ہنوز ناپیدہے تاہم صغیرافراہیم کی اس کتاب میں ادب سے اس ذوق وشوق کااظہارہواہے جس کی ارزانی فکشن کی تنقیدکوامیر بنا سکتی ہے ۔پریم چند پراب بھی اتنانہیں لکھاگیاہے جتنالکھاجاناچاہیے تھا۔ صغیرافراہیم نے پریم چند کے مطالعے کے ایک تشنہ پہلوکوبھی اپنی روشنائی سے سیراب کرنے کی جسارت کی ہے اورمیں سمجھتاہوں کہ جوبیان میں نے دیاہے وہ حرف بہ حرف صحیح ہے۔وہ اِس موضوع پرمسلسل لکھ رہے ہیں۔ اپریل ۲۰۱۶ء میں بنارس سے نکلنے والے مشہور رسالہ ’’تحریکِ ادب‘‘نے اُن پرگوشہ نکالاوہ بھی ’’ماہرِ پریم چند‘‘کی حیثیت سے۔
سیماصغیر: اکثرکہاجاتاہے کہ وارث علوی فکشن کے بے باک نقادہیںانھوںنے آپ کے ناولوں پر سخت تنقید کی۔ صغیرصاحب نے بھی بڑاسخت جواب دیاکہ وارث علوی صاحب تاریخی ناول کوکوئی حیثیت نہیں دیتے ۔ صغیرصاحب نے یہ بھی کہاکہ تاریخی ناول لکھنا ہرکس وناکس کے اختیار میں نہیں ہے۔ قاضی صاحب نے جوتاریخی ناول لکھے ہیں وہ توبہت بڑی بات ہے ۔انھوںنے میدان جنگ کاجو نقشہ پیش کیاہے وہ بھی آج تک اتنی مہارت کے ساتھ کوئی پیش نہیں کرسکاہے ۔
قاضی عبدالستار: اردوکے جتنے بھی نقاد علی گڑھ آئے چاہے وارث علوی ،شمس الرحمن فاروقی ،فضیل جعفری یہ سب خلیل الرحمن اعظمی کے پاس آتے تھے اورخلیل الرحمن اعظمی سے میرے اختلافات تھے۔ وارث علوی صاحب میرے پاس مجھ سے گفتگو کے لیے آنندبھون آئے،میں گھرپر موجودنہیں تھاچنانچہ وہ فیکلٹی پہنچے۔ فیکلٹی آفس میں ہم لوگ بیٹھے تھے ۔ شاید سرور صاحب ڈین تھے یانورالحسن صاحب ڈین تھے۔ اسی کمرے میں جس میں ڈین بیٹھاکرتے تھے یہیں ہمارا وارث علوی سے باقاعدہ تعارف ہوا۔اسی دوران شہریار کافون آیا وارث علوی نے شہریارسے کہاکہ قاضی صاحب کے ساتھ بہت زیادتی ہوئی تو شہریار نے کہا کہ قاضی صاحب نے خوداپنے ساتھ زیادتی کی ہے۔نورالحسن بیٹھے ہوئے تھے توکہاکہ تم کیاکہتے ہوتوکہاکہ آپ کوانٹرسٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بعد انھوںنے مجھ سے باتیں کیں۔ سب سے پہلے میں نے یہ کہاکہ اردوکی سب سے کمزور صنف کانام تنقید ہے۔ نمبردومیں تنقید کوادب کے دوڑتے ہوئے گھوڑے کی پیٹھ کے زخم پربیٹھی ہوئی مکھی سمجھتاہوں۔ تنقیداردوادب کابدگوشت ہے، تنقیداردوادب کا فیل پاہے، تنقیدکی اردوادب کو ضرورت ہی نہیں ہے ثبوت یہ ہے کہ تمام عالمی ادب میں عظیم ادب پیداہوچکا تھا۔ اس کے بعد تنقید وجودمیں آئی ہے اورجب سے تنقیدوجودمیں آئی ہے عظیم ادب پیداہونا بندہوگیا ہے یہ میری Thesisتھی ۔اب ظاہرہے کہ جس آدمی کی یہ Thesisہوگی اُس کے خلاف نقادہوںگے۔ شمس الرحمن فاروقی ،سردارجعفری، وارث علوی سب میرے خلاف تھے۔ چونکہ وارث علوی تنقیدمیں جملے بازی کرتے ہیں اِس لیے میں نے ایک سمینار میں اُن کوکہاتھاکہ جب وار ث علوی کی تنقیدپڑھتاہوں تومجھے ایسا لگتاہے جیسے وارث علوی بنڈیری پر کلیجی باندھ کر ایوان ادب کی سیڑھیوں پرکھڑے ہوکر شہرت اورمقبولیت کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ یہ انھوںنے پڑھااور وارث علوی نے میر ے اوپرتنقیدلکھی توظاہرہے کہ وہ متعصبانہ تنقیدتھی اوراس عہدمیںجن لوگوں کاخیال ہے کہ شمس الرحمن فاروقی بہت بڑے نقاد ہیں میں اُن سے اتفاق نہیں کرتا یہ میری اپنی رائے ہے اورمیری رائے اس لیے ہے کہ میں نے حالی،شبلی ،کلیم الدین ،احتشام حسین عابدعلی عابد اورسجادظہیر ان سب کا بالاستیعاب مطالعہ کیاہے ۔کم لوگ ہیں جنھوںنے تنقیدکااتنا بالااستیعاب مطالعہ کیاہو۔ یہ لوگ دوئم درجہ کے نقادہیں اوران لوگوں میں سب سے کمزور نقادوارث علوی ہیں۔ وارث علوی نے مجھ سے کہاکہ آپ نے تاریخی ناول کیوں لکھے تومیں نے کہاکہ جناب والااِسی کیوں نے ترقی پسند ادب کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی ۔آپ کون ہوتے ہیں مجھ سے سوال کرنے والے کہ میں نے کیوں لکھا۔میری تخلیقیت نے مجھ سے کہاکہ میں لکھوں۔میری قدرت کلام نے مجھ کولکھنے پرمجبور کیا۔آپ اِس لیے نہیں لکھ سکتے کہ آپ لکھ نہیں سکتے اورآپ کے اندرصلاحیت نہیں ہے، آپ کے پاس الفاظ نہیں ہیں، آپ کے پاس اسٹائل نہیں ہے، آپ کے قلم میں جان نہیں ہے۔ تاریخی ناول صرف وہ شخص لکھ سکتاہے جس کوزبان وبیان پر بھی قدرت ہواورعلم وفضل بھی اتنا ہوکہ وہ میدان جنگ کی ذراذراسی تفصیل کونہ صرف جانے بلکہ بیان کرنے کی طاقت رکھتاہو۔ انھوںنے جل کروہ مضمون لکھاہے اورصغیرنے اُس کامعقول جواب دیاہے۔
سیماصغیر: میرے شوہر( صغیرافراہیم ) یہ بھی بتاتے ہیں کہ آج توپروفیسری نسبتاًآسانی سے مل جاتی ہے لیکن جب قاضی عبدالستار صاحب کوپروفیسر نہیں بنایاگیاوہ دوردوسراتھا، شعبہ میں ایک آدھ ہی پروفیسر ہوتے تھے، توان کے شاگردوںکوبھی بہت شدیدغصہ تھا جس میں سیدمحمداشرف ،طارق چھتاری اور صغیرافراہیم پیش پیش تھے کہ قاضی عبدالستار صاحب کے ساتھ ظلم ہواہے۔ سیدمحمد اشرف تو I.A.Sہوکرچلے گئے ۔طارق چھتاری A.I.Rمیں ملازم ہوگئے۔صغیرافراہیم یہاں رہے اور پھر ان کے ساتھ زیادتی ہوئی اور ٹاپرہونے کے باوجودان کو لیکچررنہیں ہونے دیاجارہاتھا۔ درجنوں مضامین اورکتاب ہونے کے باوجودبلکہ یہ کہا جاتاکہ کہیں باہرچلے جائیے آپ کافوری تقرر ہوجائے گا لیکن صغیرافراہیم اِس درسگاہ کو،چھوڑ کر نہیں جاناچاہتے تھے؟
قاضی عبدالستار: ہاں یہ بات بالکل درست ہے کہ میرے مخالفین بہت تھے اورلوگوں نے بہت شدید مخالفت کی اس کی وجہ میری زبان تھی کیونکہ میں سچ کوسچ اور جھوٹ کوجھوٹ کہتاتھااورزبان کامعاملہ یہ ہے کہ میں جوصحیح سمجھتاہوں وہ کہتا ہوں، کہتاتھااورکہتارہوںگا۔ اس کانقصان نہ صرف میں نے اٹھایا بلکہ میرے شاگردوںنے بھی اٹھایا۔ صغیرافراہیم بھی اس کا شکارہوئے۔ لوگوں کے ساتھ زیادتی بھی ہوئی ہے اور ظلم بھی ہواہے۔ اب سوچیے میں بی۔اے آنرس کاٹاپر ۔ایم۔اے کاٹاپر دوبرس آٹھ مہینے میں میں نے نہ صرف اپناتحقیقی مقالہ جمع کردیاتھابلکہ ڈگری حاصل کرلی اوران لوگوں کوفضیلت دی گئی جوصرف اساتذہ تھے، تخلیق کارنہیں۔ مجھ پر ان لوگوں کوفضیلت اس لیے دی گئی کیونکہ پروفیسرآل احمدسرور ،خلیل الرحمن اعظمی دونوںمیرے خلاف تھے اوراس لیے خلاف تھے کیونکہ میں جدیدیت کے خلاف تھا حالانکہ سرورصاحب نے مجھ سے کہاتھاکہ ہرشخص کی اپنی رائے ہوتی ہے آپ بھی رائے دیجیے تومیں نے اپنی رائے پیش کردی اوروہ میرے خلاف ہوگئے۔ تومیری مخالفت کے ساتھ ساتھ میرے شاگردوںنے میری وجہ سے بہت نقصان اٹھایا جس کامجھے کل بھی احساس تھا اورآج بھی ہے۔
سیماصغیر: صغیرافراہیم صاحب کو افسانے کی طرف آپ نے راغب کیااورپھر آپ کے حکم کے بموجب وہ تنقیدکے میدان میں اُترے ۔پچھلے ۳۵سال میں تنقیدمیں انھوںنے اپناایک مقام بنالیاہے ۔طلبا کی خواہش اوردوستوں کے اصرارپرمیں نے آل انڈیاریڈویو سے اُن کے کئی افسانے حاصل کرلیے ہیں جو جلدہی منظرعام پر آجائیںگے۔ میری خواہش ہے کہ آپ انھیں حکم دیں کہ وہ افسانے کی طرف پھرسے توجہ دیں اورآپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عصرحاضرکے تناظرمیں افسانے بھی لکھیں؟
قاضی عبدالستار: ہاں یہ بات بڑی اہم بات ہے اوراچھی بات ہے اورمجھے خوشی ہوئی۔ تخلیقی ادب تخلیقی ادب ہوتاہے اورتنقیدی ادب تنقیدی ادب ہوتاہے۔ تنقیدکتنی بھی بڑی ہوجائے تخلیق کے برابرنہیں ہوسکتی۔ دونوں میں بہت فرق ہے اورمیں چاہوںگاکہ صغیرافراہیم پھرسے افسانے لکھیں اورآج کے مسائل پرلکھیں ۔آج کے مسائل پر اردو میں بہت کم لوگ لکھ رہے ہیں۔ میں تواپنی بات ہی نہیں کہتا۔میں نے توآج کے مسائل کوتاریخی تناظرمیں پیش کیاہے لیکن براہ راست لکھنابھی ضروری ہے اورمیرے خیال میں لکھناچاہیے اورمیں صغیرافراہیم سے توقع بھی کرتاہوں کہ وہ ان تمام مسائل مثلاً بھوک، افلاس، بیماری، تعصب جیسے ڈھیروں مسائل پر لکھیںگے تومجھے امیدہے کہ وہ کامیاب ہوں گے اورمجھے بے حدخوشی ہوگی کہ میرے کسی شاگرد کی تخلیقی کتاب آئے جیسے سیدمحمداشرف ،طارق چھتاری ،ابن کنول وغیرہ کی کتابیں آئی ہیں اورمجھے امیدہے کہ صغیرافراہیم کی بھی تخلیقی کتاب بہت جلد آئے۔ اوروہ تمام افسانے جوریڈیو میں براڈکاسٹ ہوئے ہیں وہ دوبارہ چھپنے چاہئیں۔کتابی صورت میں چھپنے چاہئیں۔ جی چاہے انتخاب کرلیجیے ۔اگرانتخاب نہ بھی کیاجائے توجوآپ مناسب سمجھتی ہیں اس کوچھپوائیے۔
سیماصغیر: میرے والدکاانتقال ہوئے ایک عرصہ گذرچکاہے وہ خطیب تھے ،فرنگی محل سے فارغ التحصیل تھے اورحسن چچا یعنی سید محمدامین کے والدصاحب کے گہرے دوستوں میں تھے۔وہ جب بھی محفل سے خطاب کرکے آتے تھے،توہم بچوں کا بہت خیال کرتے تھے،چھوٹی چھوٹی باتیں اورپوچھتے رہتے تھے۔ آج عرصے بعدجب میں آنکھ کی تکلیف میں مبتلاہوںگھرمیںتو جب بھی آپ کافون آتاہے توآپ سب سے پہلے میری بیماری اورآنکھ کے بارے میں پوچھتے ہیں ،مشورے دیتے ہیںاورصغیر صاحب کوسخت ہدایات دیتے ہیںتومجھے محسوس ہوتاہے کہ جیسے میرے والدابھی حیات ہیں اور میری فکر اسی طرح سے کررہے ہیں ۔مجھے ہمیشہ آپ کی دعائیں اورسرپرستی چاہیے۔
قاضی عبدالستار: یہ تومیری فطرت ہے کہ میرے شاگردوں اوران کے متعلقین سے مجھے محبت ہے اورجوکچھ میں محسوس کرتا ہوں وہ کہتابھی ہوں اورکرتابھی ہوں۔ اورآپ (سیما)میرا جس طرح خیال،ادب، تعظیم ، لحاظ کرتی ہیںمیں اس کی قدرکرتاہوںاور فکر مند رہتاہوں بلکہ چاہتاہوں کہ آپ ہمیشہ صحت مندر ہیں اورآپ کی آنکھوں کا علاج باقاعدہ ہو۔یہ آپ کی سعادت ہے اورمجھے خوشی ہوتی ہے۔
٭٭٭