٭ڈاکٹرصالحہ صدیقی (الٰہ آباد)
وومنس ڈے یوں تو ایک خاص دن بنایا گیا ہے خواتین کی عزت افزائی کے لیے ۔لیکن کیا اچھی بات ہوتی اگر ہر روز خواتین کی عزت افزائی ہر گھر میں کی جاتی۔لیکن یہ میری بس ایک بچکانہ بات ہے جس پر عمل ممکن نہیں ۔کیونکہ اگر یہ ممکن ہوا تو دنیا رنگین کیسے رہے گی ؟چلیے میں اس رنگینی کا مطلب واضح کر دیتی ہوں۔دراصل میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ سکھ ،شانتی ،سکون کسے پسند ہے لوگوں کو تو مسائل سے محبت ہے تبھی تو کوئی عائشہ جہیز کی لانت کا شکار ہے ،کوئی عائشہ خودکشی کے لیے مجبور ہے؟ کوئی عائشہ تا عمر عزت ،محبت ،شفقت کے لیے ترستی ہے ،کوئی اپنی بات رکھنے کے لیے ………….خیر یہ فہرست بہت طویل ہے۔اب آپ سوچ رہے ہونگے کہ میں وومنس ڈے پر کیا کیا باتیں کر رہی ہوں مجھے تو خوشیوں والی باتیں کرنی چاہیے لیکن کیا کریں حالات تو خوشی والے نہیں ہے۔ہر کوئی آج پریشان حال ہے سماج میں اتنی گندگی ہو چکی ہے کہ صاف کرنے کے لیے بھی روح کانپتی ہے شروع کہاں سے کریں ؟ اس دلدل میں کیسے اترے ؟ مسائل ایک دو ہو تو بات بھی بنے ۔پہاڑ کی طرح مظبوط عورت کے مسائل پر وقت کی ضرب کا بھی کوئی اثر نہ ہوا نتیجہ یہ کہ یہ دن بدن بدتر ہوتا چلا گیا ۔حالانکہ خواتین کی محکومیت و مظلو میت کا خاتمہ ،ان کی شخصی آزادی ،ان کے جائز حقوق مثلا نابالغ بچوں کی پرورش کے حقوق ،جائداد میں معقول حصہ،طلاق کے مسائل ،تعلیم سے متعلق عورتوں کے حقوق ،ووٹ ڈالنے کا حق وغیرہ کے ساتھ عورت کو با اختیار بنانے کی پر زور کوشش کی گئی ،آو ازیں بلند کی گئیں،تحریکات چلائی گئیں لیکن تبدیلی کسی سے پوشیدہ نہیں ۔کچھ ایسی تحریکیں بھی شروع ہوئی جن کا مقصد سماج کو عورتوں کے مسائل کی طرف متوجہ کرنا اور معصوم وایسی عورتیں جو پڑھی لکھی نہ ہونے کے سبب طویل عرصے سے ظلم وتشددکا شکار ہے ان کو بیدار کرنا اور ان کے حقائق سے ان کو واقف کرانا ہے۔حالانکہ یہ تحریکیںبرسوں کے ظلم و جبر کے خلاف اُٹھنے والی آوازکا نتیجہ رہی لیکن ان کا کوئی اثر سماج پر نہ ہو سکا ۔یہ تمام تحریکات صرف نام تک رہ گئی ایک جائزے کے مطابق :
’’دنیا کی ہر تیسری اور جنوبی ایشیا کی ہر دوسری عورت ،آج تشدد کا شکار ہے۔امریکہ میں ہر چھ منٹ بعد ایک عورت زیادتی کا شکار ہوتی ہے ۔یورپ میںچودہ سال سے چوالیس سال تک کی خواتین کا اپاہج پن یا وفات کی اصل وجہ گھریلوں تشدد ہے۔جنوبی ایشیا میں ساٹھ فیصد سے زیادہ عورتیں گھریلوںتشدد کا شکار ہیں ۔اور اسی خطہ سے سالانہ ڈیڑھ لاکھ لڑکیاں اسمگل کی جاتی ہیں ۔دنیا میں سالانہ پانچ سال سے پندرہ سال تک کی بیس لاکھ لڑکیوں کو جنسی کاروبار کے لیے اسمگل کیا جاتا ہے۔(1)
پر فل بدوائی لکھتے ہیں:
ـ’’ہندستان میں ہر بائیس منٹ پر ایک دوشیزہ عصمت ریزی کا شکار ہوتی ہے اور ہر اڑتالیس منت پر ایک دلہن جہیز کے لیے جلا دی جاتی ہے۔گذشتہ سال پولیس نے خواتین کے ساتھ جنسی ہراسانی کے ۴۲۹۶۸معاملات درج کیے ۔خواتین کے خلاف جرائم کی درج تعداد ڈھائی لاکھ سے کچھ زیادہ ۲۶۱۴۷۴جن میں جسمانی طور پر شوہر یا رشتہ داروں کے ذریعے ظلم و زیادتی ،اغوا اور عصمت فروشی کے دھندلے میں دھکیلنا شامل ہے۔‘‘(2)
اس مطالعے سے عورتوں کے حالات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے اور ساتھ میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر مشرقی معاشرے کی پسماندگی عورتوں کی تمام پریشانیوں کا سبب ہے تو مغربی ممالک میں عورتیں اتنی مظلوم کیوں ہیں ؟وہاں کی عورتیں بھی آزادی ملنے کے باوجود بھی آزادی کے خطرناک مسائل میں گھری ہوئیں ہیں ۔ الگ الگ ملکوںمیں اپنے معاشرتی ،تہذیبی اور سیاسی افکار پر مشتمل مختلف تحریکات شروع کی گئیں لیکن نتیجہ کوئی خاص نہیں رہا۔ آج فیمنزم کے نام کی ایک تحریک بہت مقبول ہے ۔اس تحریک کا تعلق عورتوں سے ہے ،جو سماج میں صنفی مساوات کے لیے شروع کی گئیںہے۔کیونکہ عورت کو آزادی کی نفی تو ہوئی ساتھ ہی اس کے سامنے نئے مسائل کی نمائندگی نے دیگر مصائب میں بھی مبتلا کر دیا۔ جس میں سب سے بڑا مسئلہ اس کی حفاظت کا تھا ،کیو نکہ عورت کو آزادی تو مل گئی لیکن اس کے ساتھ اس کو وہ حفاظت نہیں ملی کہ گھر سے باہر نکلنے پر وہ بے خوف اپنے کام پر جا سکے اور اس کی عصمت و عزت محفوظ رہ سکے ۔آج ہر روز عورت کی عصمت دری کے قصے سنائی دیتے ہے اور اخباروں ونیوز چینلوں کی زینت بنتے ہے اب تویہ ہر روز کا معمول بنتا جا رہا ہے ۔اسکے علاوہ عورت کا گھر سے باہر نکلنے کا بہت بڑا نقصان گھر کے داخلی نظام کو ہوا ،بچے والدین کے لاڈ و شفقت سے محروم ہو گئے ۔والدین خصوصاًایک ماںاپنے بچوں کو وہ تعلیم وہ اخلاق اور وہ پیار دینے سے محروم ہوگئی جو اس کی پہلی ذمہ داری تھی۔ جس کے برُے نتائج ان کو آگے کی زندگی میں برداشت کرنے پڑتے ہے۔ آج جوائنٹ فیملی کا سسٹم ختم ہونے کی وجہ سے بھی بچے اپنے تہذیب و معاشرت اورکلچرکے ساتھ رشتوں کی اہمیت و افادیت سے بھی کوسوں دور ہوتے جا رہے ہیں ۔ ماں باپ کے درمیان گھر کے باہر کام کرنے کے باعث بڑھتی دوری کے سبب بچے ان کے پیار کے لیے ترستے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ بچے ہر روز اپنے ماں باپ سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں اور اپنی ایک نئی دنیا بنانے لگے ہے جس میں وہ پوری طرح آزاد ہوتے ہے اورجب والدین شام کو تھک ہار کر گھر لوٹتے ہیں تو ان کو گھر کی کوئی خبر نہیں ہوتی ۔کیونکہ گھر تو ان کے نوکروں کے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔اس طرح آج جرائم کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔ ناجائز رشتوں میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس سے میاں بیوی کا رشتہ کمزور پڑ رہا ہے اور اس کے نتیجے میں طلاق میں اضافہ ہو رہا ہے ۔گھر تباہ و برباد ہو جاتا ہے جس میں سزا ان کے معصوم بچوں کو ملتی ہے ۔
آج دن بہ دن تجارت کے بازاروں میں نوجوان لڑکیوںکی مانگ بڑھتی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں’’ سیلزگرل ‘‘اور ’’ماڈل گرل ‘‘ کا فیشن عام ہوتا جا رہا ہے۔آج ایک صابن اور بچوں کی ٹافی سے لے کر ہوائی جہاز تک، کار سے لے کر ایک سوئی تک فروختکرنے کے لیے لڑکیوں کا استعمال کیا جا رہا ہے ۔حد تو یہ ہے کہ مردوں سے متعلق اشیاء فروخت کرنے کے لیے بھی عورتوں کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ آج بے شرمی کو فیشن کا نام دے کر عورتوں سے وہ تمام کام کروائے جا رہے ہیں جو اس کی عصمت و عزت کو تار تار کر رہے ہے ۔آج عورتوں سے فیشن کے نام پر ان کی اصل خوبصورتی اور حسن و جمال کو چھین لیا گیا ہے۔شرم و حیا ، طہارت و پاکیزگی، عزت ، عصمت حسن، پردہ، یہ تمام اشیاء کو آج ایک عورت سے چھین کر ننگا بازاروں میں سر عام پیش کیا جاتا ہے اور ان کو اس طرح سے اس کام کے لیے فیشن کے نام پر راضی کرلیا جاتا ہے کہ عورت بخوشی اس کام کو سر انجام دیتی ہے نتیجتاًعریانیت کا بو ل بالا عام ہوتاجارہا ہے۔اس طرح آزادی ملنے کے منفی اور مثبت دونوں اثرات سامنے آئے ۔ جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی اس سلسلے میں کچھ اس طرح رقم طراز ہیں:
’’عورتوں کو جس بے دردی کے ساتھ سڑکوں اور بازاروں میں گھسیٹ کر لایا گیا ہے وہ’’ آزادی نسواں‘‘کے فراڈ کا المناک ترین پہلو ہے۔آج یورپ اور امریکہ میں جا کر دیکھیئے تو دنیا بھر کے تمام نچلے درجے کے کام عورت کے سپرد ہیں۔ریستورانوں میں کوئی مرد ویٹرشاذ و نادر ہی کہیں نظر آئے گا،ورنہ یہ خدمات تمام تر عورتیں انجام دے رہی ہیں۔۔۔بیرے سے لے کر کلرک تک تمام ’’مناصب‘‘زیادہ تر اسی صنف نازک کے حصے میں آئے ہیں جسے ’’گھر کی قید سے آزادی ‘‘دی گئی ہے۔‘‘(3)
عورت کی آزادی نے آج ایک غلط رُخ اپنا لیا ہے ۔مردوں کی برابری کرنے کو بعض عورتوں نے اپنی آزادی سمجھ لی ہے ۔حد تو یہ ہے کہ وہ ظاہرابھی مردوں جیسی شباحت کو اپنا رہی ہیں ان کے لباس کو فیشن کے نام پر اپنا رہی ہیں ،جبکہ قدرت نے مرد اور عورت کو الگ الگ اوصاف جوہر سے نوازاہے ،آزادی کے نام پر آج جنسی اختلاط کو فروغ مل رہا ہے، اس گناہ میں شادی شدہ عورتوں کے ساتھ اسکول اور کالجوں کی نو جوان لڑکیاں بھی شامل ہیں۔جس سے بے شرمی کے ساتھ جنسی مسائل بھی عام ہوتے جا رہے ہیں۔ آزادی کے نام پر کئے جانے والے گناہوں اور بڑھتی برائیوں کی فہرست یہیں نہیں رکتی ۔آج کے نوجوان جو اپنے والدین سے صحیح پرورش نہ پانے کی وجہ سے پچپن میں ماں کی آغوش سے محرومی میں پلے بڑھے ان کی نگرانی و حفاظت سے دور ہیں ۔وہ اپنے من مطابق زندگی بسر کرنے کو ہی آزادی سمجھتے ہیں خواہ وہ کتنا ہی غلط راستہ کیوں نہ ہو ۔آج کم عمر کے نوجوان بھی نشے میں دھت نظر آتے ہیں ۔شراب پینا،سگریٹ پینا، دیگر نشیلی اشیاء کا استعمال کرنا ،فحش باتیں کرنا، یا فحش فلمیں دیکھنا ،فحش لٹریچر پڑھناآج کے نوجوانوں میں عام ہوتا جا رہا ہے۔خصوصاً بڑے شہروں میں آج جگہ جگہ پب،اور بار نظر آتے ہیں جس میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بے پردگی سے ایک ساتھ نظر آتے ہیں ۔حد تو یہ ہے کہ والدین کو پتہ ہونے پر بھی وہ کچھ نہیں کرتے بلکہ فیشن اور بدلتی دنیا کے نام پر آج ان برائیوں کو بخوشی اپناتے بھی ہیں ۔اس طرح آج وہ تمام چیزیں عورتوں سے چھنتی یا دور ہوتی جا رہی ہیں جو کبھی ان کے حسن کا زیور ہوتی تھیں۔آزادی کے نام پر شرم و حیا،کی جگہ عریانیت اور بے شرمی نے لے لی ہے ۔آج فیشن کے نام پر عورتوں کی ضرورتیں لگاتار بڑھتی جا رہی ہیں ایک دوسرے سے اچھا دکھنے ،سامنے والے کو نیچا دکھانے اور بازاروں میں ہر روز آنے والی نئی اشیاء نے عورتوں کو اس قدر متوجہ کر رکھا ہے کہ ان کی خواہشات اور مانگ دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہیں لہٰذا ان تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہو گئی ہیں ۔خواہ ان کو اپنی عزّت و عصمت کا ہی سودا کیوں نہ کرنا پڑے۔آج کی عورتوں کی زندگی سے متعلق آل انڈیا مسلم پرنسل لا بورڈ کی ایک اہم رکن پروفیسر مونسہ بشریٰ عابدی فرماتی ہیں:
’’اگر ہمیں اس سلسلہ میں سنجیدگی سے کچھ کرنا ہے تو فلموں میں بڑھتی ہوئی عریانیت و ہیجان انگیزی ،خواتین کی بے باکی اور بے پردگی،نیم لباسی،مخلوط اداروں میں ان کی قابل اعتراض خدمات،حد سے زیادہ بڑھا ہواجنسی اختلاط،تفریح کے نام پر کلبوں اور بارس میں ہونے والی بے حیائی سے لے کر خاندانی نظام میں مناسب سر پرستی کو تسلیم کرنے تک ساریباتوں پر از سر نو غور کرنا ہوگا ۔ورنہ تمام سزائیں اور سارے تحفظات فضول ثابت ہوں گے اور جنسی جرائم پر قابو پانے کا خواب شرمندۂ تعمیر کبھی نہیں ہو سکے گا ۔ جو لوگ خواتین کو با اختیار اور خود کفیل بنانے کو ہی ان مسائل کا حل سمجھتے ہیں یا ہمیں سمجھاتے رہتے ہیںانہیںقبول کرلینا چاہئے کہ "Emporverment Of Women” کے نام پر وہ خواتین کو کچھ دے تو نہیں سکے بلکہ جو کچھ ان کے پاس تھا اسے بھی چھین لینے کے در پے معلوم ہوتے ہیں۔ـ‘‘(4)
قدیم زمانے میں عورتوں کے حالات بہت بدتر تھے ۔ان کا کوئی مقام یا عزت نہیں تھی۔ ظلم و ستم گویا ان کی قسمت تھی ۔ عورتوں سے متعلق قدیم نظریات میں تضاد پایا جاتا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض اس کے ساتھ ہیں ۔جنہوںنے عورتوں کی عظمت اور اس کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کی بھی کوشش کی ہے اس کے برعکس کچھ تو ایسے ہیں جو عورتوں کے مخالف ہیں اور ان کو ’’اماالخبائث ‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔قدیم یونان میں توعورتوں کو حقیر سمجھتے تھے یہاں تک کہ علماء کے نزدیک بھی ان کی کوئی اہمیت نہیں تھی ۔ان کا نظریہ عورتوں کو لے کر یہ تھا کہ اگر ایک سانپ کسی کو ڈس لیتا ہے تو اس کے زہر کا علاج ممکن ہے لیکن ایک عورت کی برائیوں کا علاج ممکن نہیں ۔اسی طرح اگر ہم کچھ قدیم فلسفیوں و مفکروں کی عورتوں کو لے کر ان کا نظریہ دیکھیں تو ان میں مشہور و معروف فلسفی سقراط نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ میں نے جس بھی مسئلہ پر غور کیا اس کی گہرائیوں کو بہ آسانی سمجھ لیا مگر تا حال میں عورت کی فطرت کوسمجھ نہ سکا۔
ہندوستانی معاشرے میں عورتوں کے اپنے مصائب ہیں
میں اپنی باتوں کا اختتام چند سوالات پر ختم کرنا چاہونگی کہ :
(۱)کیا کیا ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیںکہ ہمارا سارا علم صرف تقریروں ،خطبوں اور مضامین تک محدود ہیں ؟
()لڑکیوں کو رشتے داروں،پڑوسیوں اور زمانے کے طعنوں کے خوف سے مرنے کے لیے سسرال میں چھوڑنا صحیح ہے؟
()کیاماں باپ بدلتے وقت کے تقاضوں کے مطابق بچوں کی پرورش کر رہے ہیں؟کیا وہ آنے والے نت نئے مسائل کے لیے تیار ہیں ؟
()کیا تعلیم صرف ڈگریوں تک محدود ہے؟
()کیا تعلیم کے ساتھ اخلاق ،انسانیت ،محبت ،رشتوں کی اہمیت ،ادب ،لحاظ ،تمیز کی تعلیم بھی دی جا رہی ہے ؟
حواشی:
(1) اردو دنیا۔دسمبر ۲۰۰۱۲ء صفحہ ۴۰۔
(2)ماہنامہ حیات ،ماہ ستمبر ۲۰۱۲ء صفحہ ۱۵۔
(3)آزادیٔ نسواں کا فریب (فرید بک ڈپو پرائیویٹ لمٹیڈ ،دہلی ۱۹۹۹ء ،صفحہ ۱۶۔
(4)’’ہم ایسی تہذیب کیا کریں گے ؟(ذُلفیٰ پبلی کیشنز ممبئی ۲۰۰۶ء )صفحہ ۱۰۶‘‘ ۔
Email: salehasiddiquin@gmail.com