٭پروفیسر عارفہ بشریٰ
صدر شعبۂ اُردو
کشمیریونیورسٹی،کشمیر
٭ریاض احمد کمہار
شعبۂ اردو کشمیریونیورسٹی،کشمیر
عظمت غالب ہے اک مدت سے پیوندِ زمین
مہدی مجروح ہے شہر خموشاں کا مکین (اقبالؔ)
غالب ؔاور اقبال ؔ دوایسی منفرد شخصیات ہیں جن کی کوئی نظیر اب تک دنیائے ادب میں نہیں ملتی۔ان کا تخیل نادرہ کا راور مضامین جداگانہ ہیں۔غالبؔ ہوں یا اقبالؔ دونوں ہی نابغۂ روزگار شخصیات تھے اور دونوں ہی کو آفاقی شاعر تسلیم کیاگیا۔ دونوں شعراء کے مابین ایک فطری اورذہنی رشتہ استوار نظر آتاہے۔ دونوں ہی کی شاعری گنجینہ معانی کاطلسم ہے جس میں حکمت وعرفان کے موتی پوشیدہ ہیں اوردونوں زمانے کامرکب نہیں بلکہ راکب ہیں۔ انہی خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر فرمان فتح پوری دونوں عظیم شاعروں کے اشتراک کے متعلق یوں رقم طراز ہیں:
’’غالبؔ اور اقبال ؔدونوں اردو کے مایہ ناز فنکار ہیں دونوں اردو اور فارسی کے عظیم المرتبت شاعر اور اپنے ا پنے اسلوب کے موجد اور اپنی زبان کے خالق ہیں دونوں ابداع اور اختراع کی بے پناہ قوتوں کے مالک ہیں۔دونوں کا تبحر علمی اپنے معاصرین میںامتیازی اورطرز فکر فلسفیانہ ہے۔ دونوں نے اردو میں ترقی پسندانہ رجحانات کو رواج دے کر ہماری شاعری کو ایک نیا موڑ عطا کیا۔اگر غالب اوراقبال کی شخصیتوں کی اس خارجی مماثلت کے اسباب پر غور کریں اوردونوں کے مجموعی کلام کو پیش نظر رکھ کر ان کی فنی ‘ علمی اورتخلیقی بصیرتوں کا جائزہ لیں تو ہمیں ان کی طبیعتوں میں عجیب تعریف و تشابہ نظر آتاہے‘‘۔
(فرمان فتح پوری‘ ڈاکٹر تنقیدی شذرات ومقالات لاہور الوقار پبلی کیشنز۲۰۰۵ ص۳۲۰)
غالبؔ او راقبالؔ کے متعلق فرمان فتح پوری کی اس تحریر کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں دونوں شخصیات کے مابین مطابقت اورمشترکہ موضوعات کا سراغ لگانا ضروری ہے تاکہ اس امر کی نشاندہی ہوسکے کہ کس حدتک اقبالؔ‘ غالبؔ سے متاثر بھی تھے اوران کے معترف بھی تھے اگرچہ زمانی اعتبار سے دونوں کے درمیان کافی بُعد پایا جاتاہے۔
اسی تناظر کو مدنظر رکھتے ہوئے اقبال کی وہ تحریر جو انہوں نے اپنی ڈائری میں ا ن شخصیات کے متعلق لکھی ہیں جو ان کے لیے حلقہ تاثُر میں معتبر و محترم ٹھہریں:
"I confess, I owe a great deal to Hegel, Goetha, Mirza, Galib, Abdul Qadir Bedil and Words Worth. The first two led me into the inside of things, the third and fourth taught me how to remain oriental in spirit and expression after having assimilated foreign ideals and poetry and the last saved me from athiesm in my student days”.
(Gabriels Wing: A study into the religious ideas of
Sir Mohammad Iqbal, Annemarie Schimmel Page No. 316)
دوسری جگہ علامہ اقبالؔ‘ غالبؔ کو آفاقی شاعر تسلیم کرتے تھے جس کے ذہن اورتخیل کی رسائی اپنے زمانے اورعلاقائی حدود سے ماورا تھی۔’’ شذرات‘‘ میںغالبؔ کے بارے میں وقیع رائے پیش کرتے ہیں:
"As far as I can see Mirza Galib, the persian poet, is probably the only permanent contribution that we Indian Muslims have made to the general muslim literature. Indeed he is one of those poets whose imaginations and intellect place them above the narrow limitations of creed and nationality. His recognition is yet to come”.
’’………غالبؔ یقینا ان شعراء میں ہیں جس کا ذہن اورتخیل انہیں مذہب اور قومیت کی تنگ حدود سے بالا تر مقام عطا کرتاہے۔غالب شناسی کا حق ادا ہونا بھی باقی ہے‘‘۔
(اقبال شذرات فکر اقبال ص۲۵)
گویا علامہ اقبالؔ غالبؔ کے مزاج اور تخلیقی مقاصد سے مطابقت رکھتے تھے بہ الفاظ دیگر جن کے اپنالینے سے ان کے فن کو نکھار میسر آسکتا تھا انہوں نے اسے اپنالینے میں کوئی عار محسوس نہیںکیا۔ اس کے باوجود یہ تتبع اوراستفادہ ان کی مخصوص انفرادیت کو مجروح نہ کرسکا اوران کی تقلید میں بھی تخلیق و اجتہاد کی شان بر قرار رہی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ افکار اقبال ؔکے کچھ پہلو ایسے ہیں جو صرف انہی سے منسوب ہیں یعنی معلومات قرآنی اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیغام کی اہمیت وانفرادیت کولازوال بنادیا۔ تاہم علامہ اقبالؔ کو غالبؔ سے ذہنی لگاؤ او رفکری ربط تھا اس کا منہ بولتا ثبوت ’’بانگ درا‘‘ کی نظم’’مرزا غالبؔ‘‘ ہے جس میں وہ غالب کی بحیثیت شخص اور شاعر مدح فرمارہے ہیں اورانہیں جرمنی کے مفکر شاعر گوئٹے کاہم پلہ اور ہم نوا قرار دے رہے ہیں۔کوئی بھی ہستی صرف اسی وقت محرک تخلیق بنتی ہے جب کہ مادح اور ممدوح میں گہرا ربط ہو اوران کے مابین کوئی فکری رشتہ استوار ہو۔اس نظم کو تخلیق کرتے ہوئے اقبالؔ کادل غالبؔ کے لیے عقیدت ومحبت کے کن جذبات سے سرشار تھا اس کا اندازہ نظم کو پڑھنے کے بعد بخوبی ہوتاہے ۔درج ذیل اشعار اس حقیقت کے شاہد ہیں کہ اقبال کے نزدیک غالب کی کیا قدروقیمت تھی ۔
لطف گویائی میں تیری ہمسری ممکن نہیں
ہو تخیل کانہ جب تک فکر کامل ہم نشیں
ہائے اب کیا ہوگی ہندوستان کی سر زمین
آہ اے نظارہ آموز نگارہ نکتہ بین
گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی دلسوزی پروانہ ہے
اقبالؔ ‘غالبؔ کی فکر رسا اور تخیل کی بلند پروازی کے مداح تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ ’’غالب شناسی کا حق ادا ہونا ابھی باقی ہے‘‘۔ غالب شناسی کاحق ادا کرنے کی گرانقدر ذمہ داری اقبال نے خود قبول کی ‘ انہوں نے صرف غالبؔ کی رسمی تعریف و توصیف ہی نہیں بلکہ ان کی فکری توانائی کو بھی فروغ بخشا۔ غالبؔ کے چراغ فکر سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے حقیقت وعرفان کی نئی شمعیں بھی فروزاں کیں‘ ان کے اشعار اورمصرعوں پر تضمین پیش کیں۔یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر سید عبداللہ نے اپنے تحقیقی مضمون’’غالبؔ۔ پیشرو اقبال‘‘ میں تحریر فرمایا ہے کہ:
’’اقبالؔ کے دل میںغالبؔکے افکار کی عزت کسی رسم عام یا روش عام کی بنا پر نہ تھی بلکہ اس سبب سے تھی کہ انہیں غالبؔ کے شاعری میں ایک ایسا بڑا فنکار نظر آیا جس کے فن کے بعض پہلو خود ان کے اپنے رجحانات کے ہمرنگ تھے۔ انہیں مرزا غالبؔ کی شخصیت اوران کے فن میںاپنی ہی جھلک نظر آئی ‘‘۔
(عبداللہ’’ڈاکٹرسید‘ مسائل اقبال ص۱۱۵)
غالبؔ اور اقبالؔ کی فکر میں جو مشابہت موجودہے اس کااندازہ غالب اور اقبال کے ان اشعار کی صورت میںہوتا ہے جہا ں خیالات تو یکساں ہیں لیکن انداز بیان مختلف ‘ تخیل میںیکسانیت ہے مگر تاثر الگ‘فکر میں مشابہت ہے لیکن پیش کش کاانداز جدا ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ مختلف افکار وخیالات کی خشتِ اول غالب ہی نے رکھی جس پر اقبال نے دیکھتے ہی دیکھتے فلک بوس عمارت تعمیر کر ڈالی۔دونوں شعراء کے فکری اشتراک کو سمجھنے کے لیے درج ذیل امثال ملاحظہ کیجئے۔
غالبؔ اور اقبالؔ کو مجتہد عصر ہونے کاشرف حاصل تھا ۔دونوں شعراء نے جدت‘ تازگی ‘ قوت تخلیق وایجاد اورغور وفکر کی عادت کو سراہا اور زندگی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کورانہ تقلید کی مذمت دونوں شعراء نے اپنے اپنے اندا زمیں کی ہے۔غالبؔ کہتے ہیں:
؎
لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں
مانا کہ اک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے
جب کہ اقبالؔ کی نصیحت ہے کہ:
؎
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود کشی
رستہ بھی ڈھونڈ‘ خضر کاسودا بھی چھوڑدے
غالبؔ اور اقبالؔ دونوں اپنے اپنے پر لطف انداز میں اللہ تعالیٰ سے شکوہ سنج نظر آتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دونوں جہاں بخشے۔دنیوی زندگی کی نعمتیں اوراخروی زندگی کی شادمانیاں بخشیں لیکن بندہ اس سے کہیں زیادہ کا طلب گار تھا۔اس کی خاموشی قناعت کے سبب سے نہیں ہے بلکہ شرما شرمی اور چپ سادھ دلی سے اب عطا کرنے والے سے خواہ مخواہ خودکیا تکرار کی جائے۔ یعنی بقول غالبؔ:
؎
دونوں جہاں دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
یاں آپڑی یہ شرم کہ تکرار کیاکریں
جب کہ اقبال ؔشکوہ سنج ہیں کہ:
؎
تیری خدائی سے ہے میرے جنوں کو گلہ
اپنے لیے لا مکاں‘ میرے لیے چار سو؟
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات اورزمیں پر اپنا نائب بناکر بھیجا لیکن افسوس کہ اس دنیا میں آکر انسان ذلیل ورسوا ہوگیا انسانیت کی تذلیل پر غالبؔ خدا سے شکوہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
؎
ہیں آج کیوں ذلیل؟ کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں
اقبالؔ کاشکوہ ملاحظہ کیجئے۔
؎
اسی کو کب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوال آدم خاکی‘ زیاں تیرا ہے یا میرا
دونوں کے خیال میں یہ دنیا بچوں کا ایک کھیل ہے۔رات دن پیش آنے والے واقعات و حادثات کی حیثیت ایک کھیل تماشے سے زیادہ نہیں بقول غالب ؎
؎
بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتاہے شب وروز تماشا میرے آگے
جب کہ اقبال کہتے ہیں کہ ؎
؎
اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں
آب وگل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں
اقبالؔ سے پیشرو اردو شاعری کی روایت میںغالبؔ ہی ایسے شاعر ہیں جو ناساز گار حالات کے باوجود زندگی سے مایوس نہیںہوئے بلکہ ایک چٹاں کی طرح ڈٹے رہے جس سے طوفان ٹکرا ٹکرا کر گزر جاتے ہیں۔ غالبؔ ایسے آزاد منش تھے جو کسی بات پر غم زدہ بھی ہوتاہے تو لمحہ بھر کے لیے مصائب کی جو بجلیاں ان پر گرتی ہیں انہیں کو وہ اپنے ماتم خانے کی شمع بنالیتے ہیں۔
؎
غم نہیں ہوتاہے آزادوں کو بیش از یک نفس
برق سے کرتے ہیں روشن ‘ شمع ماتم خانہ ہم
غم کے بارے میں غالب کا یہ قلندرانہ انداز اقبال کے قلندرانہ مزاج کے عین مطابق نظر آتاہے۔وہ اپنی شاعری کے ذریعے قوم کو آگاہ کرتے ہیں کہ مایوسی کفر کے مترادف ہے۔
؎
نہ ہو نو مید‘ نومیدی زوال علم و عرفاں ہے
امید مرد مومن ہے خدا کے رازدانوں میں
قنوطیت اورمردہ دلی افراد اورقوم کے لیے نہایت مہلک ثابت ہوتی ہے ۔ اسی لیے تلقین فرماتے ہیں کہ:
؎
دل مردہ نہیںہے اسے زندہ کردوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرضِ کُہن کاچارہ
رجائیت او رامید پروری کی بدولت غالبؔ کی نظر زندگی کی روشن پہلوؤں کی طرف رہتی ہے ۔غالبؔ اپنی شگفتہ مزاجی اورعالی حوصلگی کی بدولت غم کی تلخیوں کی بہ آسانی گوارا بنالیتے ہیں۔درج ذیل اشعار ملاحظہ کیجئے۔
؎
قفس میں مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو
؎
طبع ہے مشتاقِ لذت ہائے حسرت کیاکہوں
آرزو سے ہے شکستِ آرزو مطلب مجھے
؎
بہ فیض بے دلی نومیدی جاوید آساں ہے
کشائش کو ہمارا عقدہ مشکل پسند آیا
مذکورہ خیال کی تائید کرتے ہوئے شیخ محمد اکرام اپنی کتاب’’ حکیم فرزانہ‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ:
’’زندگی کی مشکلات او رمصیبتوں کی نسبت مرزا کا نقطہ نظر بھی کسی کم ہمتی یا فرومائیگی پر مبنی نہیں ان کاشروع سے ہی خیال تھا کہ مشکلات سے انسان کو سبق سیکھنا چاہیے او ران سے اپنی اصلاح میںمددلینی چاہیے۔انہوں نے مشکلات کامردانہ اوربڑی ہمت سے مقابلہ کیااور اپنی زندگی کی کشمکش کے متعلق بجا طور پر کہا:
؎
می ستیزم یا قضا از دیر باز
خویش رابہ تیغ عریاں میزنم
؎
لعب بہ شمشیر و خنجر ہے کنم
بوسہ بر سا طور و پیکاں میزنم
‘‘
اقبالؔ کے کلام میں رجائیت اور امید آفرینی اول تا آخر بر قرار رہی۔ انہیں یقین کامل تھا کہ زندگی کی شام غم ایک نہ ایک دن ضرور صبح امید کی صورت میں نمودار ہوگی۔ ملت کے درخشاں مستقبل پر اقبالؔ کاایمان ہمیشہ غیر متزلزل رہا۔
؎
کب ڈرا سکتاہے غم کا عارضی منظر مجھے
ہے بھروسہ اپنی ملت کے مقدر پر مجھے
؎
نومید نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ
کم کوش تو ہیں لیکن‘ بے ذوق نہیں راہی
؎
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
الغرض غالبؔ اور اقبالؔ دونوں مصائب کامردانہ وار مقابلہ کرنے کے قائل ہیں۔تن آسانی اورآسودگی دونوں کے مزاج کو راس نہیں اسی لیے غالبؔ کہتے ہیں ؎
؎
ان آہٹوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پُر خار دیکھ کر
؎
کانٹوں کی زبان سوکھ گئی پیاس سے یارب
اک آبلہ پا وادی پر خار میں آوے
اقبالؔ اس خیال کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتے ہیں:
؎
علاج درد میں بھی درد کی لذت پہ مرتاہوں
جو تھے چھالوں میں کانٹے نوک سوزن سے نکالے ہیں
محولہ بالا شعری مثالیں اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ غالبؔ اور اقبالؔ کازاویہ نگاہ اورفکر وخیال اپنی اصل کے اعتبار سے یکساں ہے۔غالب’’کی نوائے گرم‘‘ میں جو جذبات کارفرما تھے ان کی اہمیت وافادیت کو محسوس کرتے ہوئے نہ صرف اقبالؔ بلکہ آنے والے تمام شعراء نے اس سے مستفیض ہونے میں فخر محسوس کیا۔بقول ڈاکٹر عبدالحق:
’’اقبالؔ کے نغمہ وفن کاایک اہم سرچشمہ مرزا غالبؔ کاشعر وفن ہے جس سے اقبالؔ کے اسالیب فن کارشتہ استوار ہوا ہے۔د ونوں کے فکر وخیال میں ایک
حد تک مشابہت موجود ہے‘‘۔
عبدالحق۔ ڈاکٹر‘ اقبال اورغالب کے ذہنی رشتے‘ شمارہ ۱۲۱
(لاہور ‘ ادارہ فروغ اردو ستمبر۱۹۷۷ء) ص۱۴۶
٭٭٭